ان لوگوں کے لیے جو ریاست کے مذہبی بیانیے
کو غلط سمجھتے ہیں ۔۔
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقعہ بھی اسی شخص کا ہے جو ہندو
ازم سے متنفر ہو کر ۔۔ کرسیچینٹی کی پناہ میں آگیا ۔۔۔ اس کا تعلق ہند سے ہے ۔۔ جو
کہ ہندووں کی کسی نچلی ذات سے تعلق رکھتا تھا ۔۔ کرشچینیٹی قبول کرنے کے بعد اسے
گاوں چھوڑنا پڑا ۔۔۔ مگر جو گاوں اب اس کو میسر آیا وہ دو سو گھروں کا گاوں ہے اور
ساری آبادی ہندووں کی ہے ۔۔۔ صرف یہ ایک خاندان کرسچئین ہے ۔۔۔۔
کہتا ہے ۔۔۔ میرے والد کا انتقال ہوا ۔۔۔ تو ان کی آخری رسومات کے بعد ۔۔۔
قبرستان لے جایا گیا ۔۔ جو کہ ہندووں کا تھا ۔۔ وہ لوگ اس میت کو دفن کرنے پہ مانع ہوگئے ۔۔۔ کہان ان کا یہ تھا کہ ۔۔۔
چونکہ یہ میت ایک مسلمان کی ہے ۔۔ اسے ہم یہاں دفن ہونے نہیں دیں گے ۔۔۔ یعنی وہ غیر ہندوں کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔
دونوں طرف سے گفت و شنید جاری رہی ۔۔ اتنے
میں اس کو اپنے سیل فون کا خیال آیا جس
میں اس کے پادری صآحب نے ایک نمبر دیا تھا کہ اگر کوئی اس قسم کی پریشانی ہو تو
کال کر لے ۔۔۔ اس نے اس نمبر پر کال کی ۔۔ اور صورتحال سے آگاہ کیا ۔۔۔۔ آدھا
گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ ۔۔ پولیس کی گاڑیاں نمودار ہوئیں ۔۔ اور آنا فانا ۔۔ ساری
صورتحال کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔۔ اور مکمل احترام کے ساتھ میت دفنائی گئی ۔۔۔۔ جی ہاں وہ کال امریکن ایمبیسی کو کی گئی تھی ۔
No comments:
Post a Comment