تربیت اولاد اور ہم
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تربیت اولاد ہماری ذمہ داریوں میں نہایت ہی خاص اہمیت کا حامل ہے
۔۔۔۔ میری نظر جب اپنے اطراف میں پڑتی ہے
تو مجھے نظر آتا ہے کہ ۔۔۔۔ آج کے والدین
کی سوچ ، معیار سوچ و مقصد تربیت یکسر بدل
چکا ہے ۔۔۔ ویسے تو ہمارا تہذیبی زوال کئی
سو سال پہلے شروع ہو چکا تھا ۔۔ مگر آسمانی تہذیب اتنی جلدی نہیں ختم ہوسکتی ۔۔۔
اور جس دن یہ ختم ہوئی اس دن دنیا سے انسان کا وجود بھی مٹ جائے گا یعنی قیامت
برپا ہوجائے گی ۔۔
اس فانی زندگی میں ہمارا اس قدر گم ہوجانے کی واضح دلیل یہ
ہے کہ ۔۔ ہم پر سختیاں پڑتے ہی زبان پر شکوے آجاتے ہیں ۔۔۔ اور اپنے آپ کو کم بخت
و بد نصیب کرداننے لگتے ہیں ۔۔۔۔ اگر اس
کی معمولی سی تصویر دیکھنی ہو تو ۔۔۔ آج
کے شعری ادب کا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔
جبکہ جو زندگی ہماری ابدی ہوگی ۔۔۔ اس کا
شعور ہمارے ذہنوں میں بیٹھا نہیں بلکہ بٹھایا جا رہا ہے ۔۔ جس میں وہ عناصر
بخوبی کامیاب بھی ہیں ۔۔ کہ مذہبی لوگ عذاب سے ڈرا ڈرا کر انسان کو کمزور کرتے ہیں
۔۔۔ جنت کا تصور ہی پیش نہیں کرتے ۔۔۔۔ اس جملے نے اس قدر پذیرائی حاصل کی ہے
کہ اب
عذاب آخرت کا تصور ہمارے ذہنوں سے تقریبا محو ہو کر رہ گیا ہے ۔۔ عربوں کے
ہاں ایک جملہ اسی مد میں بقدر سننے کو ملتا ہے کہ ۔۔۔ گر غلطیاں ہوجائیں تو ۔۔ کہہ
دیتے ہیں ۔۔ اللہ غفورو رحیم ہے ۔۔ وہ معاف کردے گا ۔۔ سو کرتے جاو ۔۔ خلاصہ کلام
یہ کہ ہم نڈر ہوگئے ہیں ۔۔ اور تصور زندگی ۔۔ حقیقتا معیار زندگی کو بلند کرنا ہی
رہ گیا ہے ۔۔۔۔
ہمارا آج کا معاشرہ اس قدر
متذبذب کیوں ہے ؟ آج کے نوجوان میں
وہ بنیادی شعور زندگی کیوں موجود نہیں ہے
جس کی بنیاد ہمارے اجداد ہم میں بچپن سے ڈالتے آئے ہیں۔۔۔ ہر موڑ پر ہماری راہنمائی کے لیے
موجود ہوتے تھے ۔۔ اور علم کی محبت ہمارے دلوں مین انڈیلتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔ کردار و
معیار سوچ کو بلند کرنے کی تحریک دیتے تھے ۔۔ اور اس کے طریقے بتاتے تھے
۔۔۔۔ آج صورت حال یہ کہ بزرگوں سے تو ہم
نے مکمل ناطہ توڑ لیا ہے ۔۔ انہیں پرانے زمانے
کی بوسیدہ دیوار کہہ کر ایک طرف دھکیل دیا ہے ۔۔۔ اور ماوں کے دلوں میں یہ بات سرایت کرتی جارہی ہے کہ ۔۔ ان کی اپنی بھی کوئی
زندگی ہے ۔۔۔۔ وہ کیوں قربان کی جائے
۔۔۔ اور باپ آخر اُس بلندی کو چھونے کی تگ و دو میں اولاد
سے یکسر غافل ہوجاتا ہے ۔۔ اسکول ٹیوشن آتا جاتا دیکھ کر وہ مطمئن رہتا ہے ۔۔۔
اس بچے کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ۔۔ دن کے چند گھنٹے ماں باپ کے ساتھ
بیٹھ جائے ۔۔۔ کہ یہ صحبت بھی بہت اہم ہے
۔۔۔ بزرگ گھر پر ہوں تو اس سے اچھی کیا بات ہو کہ ان کی صحبت تو والدین کی صحبت سے
ہزار درجہ بچے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔۔ ہم بہت سے تعمیری کام ، رویوں اور اقدام کا ذکر کرتے ہیں ۔۔۔ اگر صرف اس جانب
توجہ دے لیں ۔۔ اور اپنے مقاصد طے کرلیں تو ۔۔۔ چند ہی سال گزریں گے ۔۔۔۔۔۔ سماج
اور معاشرے میں نمایاں فرق خود ہی محسوس ہونے لگے گا ۔۔۔
No comments:
Post a Comment