سلسلہ غورو فکر
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے فکری سطح پر فرد کے تصور سماج کو
پراگندہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آج ہم اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں
سماج ہر اس برائی کو قبول کرنے پر آمادہ ہے جس کے ذریعے سے اس کی روز مرہ زندگی
معمول پر چلتی رہے ۔ خواہ اس کے عوض کوئی بھی قیمت چکانی پڑے ۔
آج ہماری تعمیری طبقات کی حیثیت کیا ہے ؟
اہل علم کے مخاطب خواص ہیں ۔
اہل ادب ،کے مخاطب خواص ہیں ، یا اپنے ہی ہمعصر جہاں وہ اپنے
اپنے نظریات پر بحث کرسکیں ۔
اہل صحافت کے مخاطب عوام ہیں پر موضوع جنگ و جدل پر مبنی ہے ۔ یعنی
عوام کے اذہان میدان جنگ ہیں یا جنگی سازو سامان ۔ ان کے حقیقی مخاطب حکومت یا بین
الاقوانی سیاست ہے ۔ مقصد حصول محض اجارہ داری ۔
اہل سیاست و اہل صحافت دونوں ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑے ۔ عام
آدمی کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں ۔ اور عام آدمی کی زندگی ویسے ہی وسائل کے حصول کی
جدوجہد میں مصروف ہے ، اسے مذید فکری پراگندگی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے ۔
تعمیر کہاں ہے ؟ آج کے نوجوان کی فکری و تخلیقی صلاحیتوں کو کس
نے کشید کرنا ہے ؟
سماج کی تشکیل انتہائی غیر مہذب سطح کو چھو رہی ہے ۔۔۔۔ جہاں نئی
نسل کے پاس سوچنے ، غور و فکر کرنے کےلیے کوئی اوزار نہیں ۔ عسرت کے ساتھ چند
جماعتیں وہ پڑھتا ہے ۔ اس کے بعد پراگندہ ذہن کے ساتھ وسائل و مسائل کی جنگ سے
نبرد آزما ہوجاتا ہے ۔ کیا یہ صورتحال اہل فکر کو پریشان نہیں کرتی ؟ یا شاید اہل
فکر بھی اپنی ذات تک محدود ہوچکے ہیں اس کیپیٹل
از م نے ہر انسان کا تصور زندگی وسائل کا تصرف تخلیق کرلیا ہے ۔ رہی سہی کسر الیکٹرانک
میڈیا اور اہل سیاست نے پوری کردی ۔ دونوں عناصر نے جذبات کو مخاطب بنایا ۔ اور
اذہان کو غورو فکر سے دور کردیا ۔ جذبات کا سیل رواں ہے جو بہتا جا رہا ہے ۔ کہیں
انٹرٹینمنٹ کے نام پر ۔۔۔ کہیں لیڈر کے نام پر ۔
ہر دو مقام پر عام آدمی نے فرشتے تخلیق کر لیے ہیں ۔ جہاں اسے چند لمحے
آسودہ حال ہونے کو مل جاتے ہیں ۔ اور وہ ان کی پوجا میں مصروف ۔
No comments:
Post a Comment