ایم کیو ایم ایک غیر منظم جماعت
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی سطح کی سیاست ہو یا محض لسانی سیاست ۔ پاکستان کی
بدقسمتی رہی ہے کہ فی الوقت جتنی بھی جماعتیں اقتدار میں ہیں وہ کوئی نہ کوئی
لسانی عصبیت رکھتی ہیں سوائے تحریک انصآف
اور جماعت اسلامی کے ۔ میری اس رائے پر
اعتراض کیا جاسکتا ہے پر فی الحال ہمارا موضوع
ایم کیو ایم اور اس کی سیاسی حرکیات یاتنظیم پر نظر ڈالنا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی سب سے
منظم جماعت ہے ۔ اس تاثر کی دو بڑی وجوہات
ہیں ۔ اول ان کے راہنما اپنی پارٹی کے مخلص ہیں اور پارٹی کے آئین پر آخری سانس تک
چلنے والے محسوس ہوتے ہیں ۔ دوم : ایک اعلان ہوتا ہے اور کراچی سارا سمندر بن کر
امڈ آتا ہے ۔
کیا کبھی غور کیا گیا کہ واقعی یہ دونوں باتیں کسی بھی
جماعت کو منظم کہلانے پر دال ہیں ؟ مزید
بھی ہو سکتی ہیں مگر عموما ً یہی دو عنصر ہیں جو
ذہن پر اثر انداز ہوتے نظر آتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں ۔ پاکستان کی سب سے زیادہ غیر منظم جماعت ایم کیو ایم ہے
۔ کیونکہ ایم کیو ایم کا تنظیم ساز ادارہ لندن میں بیٹھا ہے ۔ وہی
ساری حرکیات پر نظر رکھتا ہے اور احکامات جاری کرتا ہے ۔ اُس ادارے کے تابع
ایک لایعنی سا ادارہ پاکستان رابطہ کمیٹی کے نام سے قائم ہے ۔ جس کے سرکردہ
راہنماوں کو کبھی ساری عوام کے سامنے مرغا بنا دیا جاتا ہے ۔ کبھی تھپڑ رسید
کروائے جاتے ہیں اس طرح ان کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ کروایا جاتا ہے کہ تم ہمارے
تابع ہو اور ہمیشہ رہو گے ۔ کبھی سر اٹھانے کی کوشش نہ کرنا ۔ سو پاکستان کا یہ متابع ِلندن ادارہ اکثر بہت سے ایسے احکامات سے بھی لاعلم رہتا
ہے، جو وہاں سے کسی بھی کارکن یا کارکنوں
کے گروپ کو دیے جاتے ہیں ۔ یہ وہ گروپس ہیں جنہیں لندن والے نائن زیرو کو زیر
رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اور اگر کوئی بہت بڑی واردات انجام دینی ہو تو
جنوبی افریقہ ، دبئی ، بنکاک و دیگر ممالک میں لندن کمیٹی کے تابع فرمانبرداروں کو
استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو وہاں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اپنا کام انجام دیتے
ہیں اور رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بعد نائن زیرو کو علم ہوتا ہے کہ ارے یہ تو
ایم کیو ایم کے نام پر کام ہوگیا ۔ اور پھر
عجیب کیفیت کے زیر اثر نائن زیرو اس
امر پر مجبور ہوتا ہے کہ اس دھبے کو دھوئے
کہ اس کے چھینٹے انہی کو ناپاک کر رہے ہوتے ہیں ۔ یقینا بہت سے امور باہمی مشاورت سے بھی انجام پاتے ہونگے ۔
اس ساری غیر یقیینی صورتحال میں رابطہ کمیٹی پاکستان یا نائن
زیرو کس طرح سے اپنی سیاسی حرکیات کو
تنظیمی طور پر درپیش امور پر زیر استعمال
لائے ۔ ؟ یہ یقینا نہایت ہی مشکل و کٹھن
عمل ہے جو اب تک پاکستان رابطہ کمیٹی انجام دیتی آرہی ہے ۔ نتیجتاً بہت سے عناصر اپنے ذاتی فوائد اکھٹے
کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم کو نہایت ہی محفوظ مقام سمجھ کر اس میں شامل
ہوتے رہے ۔ خواہ وہ کارکن کی صورت میں ہو
، خواہ وہ لیڈر کی صورت میں ۔ اوپر سے نیچے تک ایسے لوگ ایم کیو ایم
میں موجود ہیں جن کو مہاجر تحریک یا الطاف
حسین سے کوئی غرض نہیں وہ میدان میں آکر الطاف بھائی کا نعرہ لگاتے ہیں اور زیر
زمین اپنے ذاتی امور کی انجام دہی میں
مشغول رہتے ہیں ۔ کارکن سطح پر ایک مثال
دوں گا ۔ کہ شیعہ سنی لڑائی کا ایک محفوظ پلیٹ فارم ایم کیو ایم ہے ۔ جس میں ایم
کیو ایم کے مختلف لیڈرز بھی شامل ہیں ۔ ایم کیو ایم کے یونٹس و سیکٹرز کو بھی تب
اس بات کا علم ہوتا ہے جب ایسے کارکن پولیس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور پھر باقاعدہ
انکشاف ہوتا ہے یہ تو لشکر جھنگوی کے لیے کام کر رہا تھا اور فلاں تو سپاہ محمد کا
کارکن تھا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح مالی فوائد سیمٹنے والے بہت سے عناصر
کراچی کے بدنام زمانہ علاقوں لانڈھی
کورنگی ، ملیر ، کے علاقوں سے نکل کر اب کلفٹن و ڈیفینس میں کروڑوں کی پراپرٹیز کے
مالک ہیں ۔ کیسی تنظیم ہے ؟ کیسا منظم
سیاسی ادارہ ہے ؟ جس کے راہنما آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر سکتے ۔ محض
ایک خوف کی سی کیفیت ہے اور چلتے چلے جا رہے ہیں ۔
یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ایم کیو ایم کوئی بہت ہی منظم
ادارہ ہے بلکہ یہ خو ف کا مجموعہ ہے خواہ وہ اپنے
کارکنان و ذمہ داران کے لیے ہو یا جہاں اس کا سایہ پڑ جائے ۔۔۔ اس کے
باوجود کراچی کی مہاجر عصبیت مجبور ہے ۔
بھٹو کے کوٹہ سسٹم کے بعد مہاجروں کے پاس
کوئی ایسا دروازہ نہیں جہاں وہ اپنا مقدمہ پیش کرسکیں ۔ ان کی آواز صرف ایم کیو
ایم ہی بنتی محسوس ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا مینڈیٹ اب تک کوئی اور
حاصل نہ کرسکا ۔ جماعت اسلامی نے خوب ڈٹ
کر ان کا مقابلہ کیا مگر مہاجر کے سامنے جمعیت سے نفرت کے اسباب موجود ہیں جس نے
کبھی بھی مہاجروں کے دل ان کی جانب مائل نہیں ہونے دیے۔ ایک عرصے کے بعد عمران خان نے کراچی کا رخ کیا تو کراچی نے ایک نئی سانس لی جس کی گرماہٹ پورے پاکستان
نے محسوس کی ۔ مگر افسوس تحریک انصاف بھی کراچی کو اپنا نا بنا سکی ۔ اور ایک مرتبہ پھر مینڈیٹ
ایم کیو ایم کے پاس محفوظ رہا ۔
اس سرسری خاکے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر غیب
سے ریاست کی مدد ہوئی ہے ۔ اور خود ایم کیو ایم
اپنی روش تبدیل کرنے کی جانب اور اپنی سیاست کو مضبوط بنیادوں پر استوار
کرنے کی جانب قدم بڑھانے پر مائل نظر آتی ہے ۔مگر ہر
طرف وہی غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ یہ وقت، ریاست کے اعصاب کا امتحان ہے کہ وہ اس موقع کو ضایع نہ
کرے اور اسی ایم کیو ایم کے لوگوں کو سپورٹ کرے جنہوں نے ایک تبدیلی کی جانب اپنا
پہلا قدم بڑھایا ہے ۔ یہ قدم مزید مضبوط ہو سکتا ہے ۔ اگر ان کی پیٹھ تھپتھپائی
جائے ۔ انہیں سیکیورٹی کا احساس دلایا جائے ۔ انہیں ریاست اپنی آغوش میں لے لیے
۔ بصورت دیگر لندن والے ہاتھ دراز ہونے کے
امکان ہیں ۔ انہیں کمزور کرنے کے لیے انہیں مضبوط کرنا ہوگا ۔ اگر ریاست یہ سمجھتی
ہے کہ وہ اپنی اسی روش کے ذریعے ایم کیو ایم کو ختم کردے گی تو یہ ایک سراب ہے ۔ پی ایس پی
عوام کی نظر میں ایک ہائیڈ آوٹ محسوس ہورہی ہے ۔ جس نے بھی جان بچانی ہو اس
میں داخل ہوجائے ۔ ایسے منظر ناموں کے بعد
کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟
مینڈیٹ والی جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ بہت سے
بھڑکتے لاووں کو الاو دینے کے مترادف ہوگا ۔ اس کا یہی حل ہے کہ مثبت راستہ اپنایا
جایے ۔ اگر یہ لوگ واقعتا سچے ہوئے تو آگے جا کر لندن سے مکمل طور پر اپنے آپ کو
علیحدہ کر لینگے ۔ فی الحال ان کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ ریاست انہین
تحفظ کا احساس دلانے میں ناکام ہے ۔ بصورت
دیگر سچ و جھوٹ واضح ہوجائے گا ۔ اور یہ
اپنی موت آپ ہی مرجائیں گے ۔ یہ ویسا ہی احساس ہے جو ہم میں جاگ رہا ہے ۔ ہم اب
کراچی کو صحت مند سیاسی جماعتوں کے میدان
کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment