مسئلہ ایم کیو ایم
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
ملک میں مجھ کو ذلِیل و خوار رہنے دیجئے
آپ اپنی عزّتِ دربار رہنے دیجئے
اکبر
ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمماضی میں اپنے کو قید کرلیتے ہیں ۔ آگے نہیں بڑھنا چاہتے ۔ ایم کیو ایم نے جس وقت اپنی آواز بلند کی اس وقت یقینا ً ایک ایسی آواز کی شدید ضرورت تھی ۔ جسے پذیرائی بھی ملی اور نوجوان بچے بڑے بوڑھوں نے جوق در جوق اس آواز پر لبیک کہا ۔ الطاف حسین صاحب کو اپنا راہنما تسلیم ہی نہیں دل و جان سے عزیز بنایا ۔ ان کی ایک آواز اٹھتی اور مرد و خواتین ، غرض ہر طبقے کے مہاجر گھر سے نکل آتے ۔ بلکہ آج بھی ایک اچھی خاصی تعداد ان کو اپنا راہنما کم پیر مانتی ہے ۔ لیکن الطاف حسین نے اس ملک کے سب سے زیادہ مہذب و تعلیم یافتہ طبقے کو کیا دیا ؟
زوال اور صرف زوال ۔۔
جو کہ مسلسل جاری ہے ۔۔۔ اسی کی دھائی میں ان کے تعصبانہ نعرے قابل قبول اور حقیقت بر مبنی تھے ۔ مگر اب دو ہزار سولہ ہے ۔ اور حضرت بیس سال سے بھی زائد عرصہ ہوا پاکستان سے باہر ہیں اس دوران زمینی حقائق بہت زیادہ تبدیل ہوئے ہیں جس کا حضرت کو ادراک شاید بالکل نہیں ، اور اس کا اظہار وہ وقتا فوقتا اپنی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں ۔ راہنما اپنی قوم کو تہذیب دیتا ہے مگر یہاں تو انہوں نے تہذیب کو ہی الوداع کہہ دیا اور اپنے چاہنے والوں کو ایک ایسے سراب میں ڈالے رکھا جہاں سراب کے سوا کچھ نہیں ۔ بہترین اذہان ان کے مصاحبین میں شامل ہیں ان کی تنظیم کو خوش اسلوبی سے منظم رکھے ہوئے ہیں جن میں اکثر کا کردار خصوصا کراچی کی سیاست میں اچھے حروف میں یاد کیا جانے کے قابل ہے ۔ مگر الطاف حسین صاحب کی بصیرت اب تک اسی کی دھائی میں قید تنہائی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ جس کا خمیازہ مہاجروں کے سپوت بھگت رہے ہیں ۔ انہیں وطن دشمن عناصر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ ان کی " پیشوائی " کے اب تک قائم رہنے میں صرف ان کے جان نثار کارکنوں کا ہی ہاتھ ہے جو ہمہ وقت ان کے ایک اشارے پر جان لینے اور جان دینے پر تیار رہے ۔ اور رہتے ہیں ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ تین دھائیاں گزرنے کے باوجود ارتقائی منازل نہ طے کرسکے ؟ اور اپنی قوم کو مسلسل آگ و خون ، نفرت و بے چارگی کی دلدل میں دھنساتے رہے ۔ یہاں تک کہ ایک پوری نسل کو برباد کر کے چھوڑا ۔
اس جماعت کے کارکن نہ جیالے ہیں نہ شیر نہ ٹائیگرز ۔۔۔ یہ باشعور اور بہت زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔اس کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ الطاف حسین صاحب کی اس قدر ہٹ دھرمیوں ، غلطیوں ، کوتاہیوں کے باوجود اس تنظیم کو منظم رکھنا اور عوام کے ساتھ مکمل رابطے میں رہنا ، خدمت میں بھی کسی سے کم نہ ہونا ۔
میں منفی پہلووں کی بات نہیں کروں گا کیونکہ جو منفی پہلو مثلا دہشت گردی ، جس زمرے میں خون ریزی و بھتہ خوری کو لے لیں ۔۔۔ یہ دہشت گردی ہر جماعت میں موجود ہے ۔ ن لیگ کی پولیس گردی ، اور گلو بٹیں تو سامنے ہیں ۔ اور بھتے کی جگہ یہ سرمایہ داروں سے فنڈز لیکر ہم پر ٹیکس کی صورت میں بھتہ لے رہے ہیں ۔۔ پیپلز پارٹی کی کراچی میں امن کمیٹی زائد ہے ۔۔ اے این پی ، سے لیکر جماعت اسلامی کی شباب ملی ۔۔ کونسی جماعت ہے جس کو دہشت گردی کی صف سے باہر رکھا جا سکے ؟ ایم کیو ایم کا مسئلہ الطاف حسین صاحب کا طرز سیاست ہے ۔ ایم کیو ایم کے ان تمام کارکنوں ، عہدیداروں کو چاہیے لندن رابطہ کمیٹی سے برات کا اظہار کریں اور ملک میں اپنی تنظیم کو از سر نو تشکیل دیں ۔۔۔ اس جماعت پر اگر پابندی لگتی کے تو کم از کم کراچی کی سیاست کو بہت نقصان پہنچے گا ۔ ایجنسیوں کی کٹھ پتلیاں ، پاک سرزمین پارٹی و ایم کیو ایم حقیقی آپس میں خون ریزی شروع کردیں گی ۔ حقیقی نے تو ویسے ہے اپنے علاقوں کا سکون خراب کررکھا ہے ۔ کراچی کا باشندہ ہونے کے ناطے اس وقت کراچی کو دو جماعتیں اون کرتی ہیں ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم اور ان دونوں جماعتوں کا حقیقی سیاست میں ہونا اہم ہ ۔ بشرطیکہ ایم کیوایم کی تشکیل نو ہو اور وہ ماضی کی سیاست سے باہر نکلیں ۔
No comments:
Post a Comment