Sunday, October 23, 2016

تعدد ازدواج ۔ اور سماجی رویے

تعدد ازدواج ۔  اور سماجی رویے
شہیر شجاع

غور کیا جائے تو  مرد ہو یا عورت چاہے جانے کا جذبہ انسانی جبلت ہے ۔ اور  جس قدر انسانی جبلت سے رب تعالی واقف ہے انسان اپنے آپ کو اس قدر نہیں جان سکتا ۔ اور جب وہ جان جاتا ہے تو پھر حسن بصری ،  امام غزالی ، ابن عربی ، امام شافعی و دیگر  حضرات کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ توحید کا اولین مطلوب اللہ جل شانہ پر  بلا شرکت غیرے ایمان لے آنا ہے ۔ اس کے بعد  کے احوال پر عام آدمی پر کوئی زور نہیں ۔ یہ علم کے درجات  ہیں  جس قدر وہ گہرائی میں اترتا چلا جائے ۔  اسی طرح تعدد ازدواج کا معاملہ بھی مرد اور عورت کی جبلت کو  عین سامنے رکھتے ہوئے  ہی یہ حکم سامنے آتا ہے ۔ یوں کہہ دینا کہ آج سے پچاس سال پہلے تک عورت نان نفقہ اور چار دیواری میں خوش تھی جبکہ آج اس کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ یہ  عمرانیات کے مقدمے کے خلاف بات ہے ۔  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے لیکر بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔  لبنی قرطبی ، الحرہ ، رضیہ سلطانہ ، رابعہ بصری  ، نعنااسمع  اور بہت سے  نامور خواتین  اپنے کارناموں کی بنا پر تاریخ میں امر ہیں ۔ مرد اور عورت کی بنیادی جبلتیں تاقیامت نہیں تبدیل ہوسکتیں ۔ تربیت کا معیار بدل سکتا ہے اور  فی زمانہ معاشرتی و سماجی عدم مساوات   کی سب سے بڑی وجہ تربیت کا فقدان ہے ۔   مجھ سے کچھ ایسی سطور سرزد ہو سکتی ہیں جو "عام عورت" کی نظروں سے گزریں تو  اسے ناگوار گزریں ۔ سو ایسی حقیقتوں سے گریز کرتے ہوئے   سماجی رویے کا ایک عملی مشاہدہ پیش کرتا ہوں ۔
ایک صاحب جو معاشی طور پر مضبوط ہیں اور اپنی  ازدواجی زندگی میں مکمل مخلص بھی جس کا اقرار ان کا گھرانہ بذات خود کرتا رہا ہے ۔ انہیں خواہش ہوئی کہ وہ دوسری شادی کریں ۔ وہ خود پینتالیس سے اوپر کے پیٹے میں ہونگے ۔یا تو وہ شادی کر کے اپنی دوسری بیوی کو اپنے گھر لے آتے اور زندگی جیسی گزر رہی تھی ویسی ہی گزرتی رہتی گر پہلی خاتون اپنے شوہر کی جبلی خواہشات اور الہامی حقوق  کا خیال کرتے ہوئے برضائے الہی اپنی دوسری بہن کو گلے سے لگا لیتی ۔  یا تو وہ ناجائز تعلقات بنا لیتے ۔ اس صورت میں انہیں ایک نہیں کئی خواتین میسر آجاتیں ۔ اور ہمارا سماج بھی مانع نہ ہوتا ۔ اس پر کوئی انگلی نہ اٹھتی ۔ نہ ہی اسے برے کیریکٹر کا گردانا جاتا ۔ انہوں  نے پہلا راستہ اختیار کیا ۔ شادی کرلی ۔ ان کا شادی کرنا تھا ۔ ایک طوفان کھڑا ہوگیا ۔  وہ الزامات لگے جو کہ ایک زانی پر لگنے چاہئیں ۔ زندگی اجیرن کردی گئی ۔
یہاں نقص کیا ہے ؟ ہمارے پاس ایک عمل موجود ہے  مگر اسے اختیار کرنے کی سہولت کیوں موجود نہیں ؟ جبکہ اسے اختیار کیے جانے پر سماج کے بیشمار مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ معاشرے کی شرح خواندگی بڑھنے کے باوجود والدین کے لیے بیٹی اب تک بوجھ کیوں ہے ؟ جب تک اس کا بیاہ نہ ہوجائے والدین کا سر پیر بھاری کیوں رہتا ہے ؟ شاید کچھ احباب میری بات سے انکار کریں ۔ مگر یہ انکار غیر حقیقی اور بد دیانتی پر مبنی ہوگا ۔ کتابی باتیں یا اپنی سوچ کا اظہار ہوگا ۔ جبکہ حقیقت یہی ہے کہ  بیٹی کی عمر اٹھائیس ہوتے ہی والدین پھر رشتے چھانٹتے نہیں بلکہ  سر پیٹتے ہیں کہ فلاں رشتہ کیوں منع کیا گیا یا فلاں کیوں منع کیا گیا ۔ اور صورتحال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اس لڑکی کا مستقبل کسی بھی ایرے غیرے کے ساتھ باندھ دیا جائے ۔  کیا یہ تعدد ازدواج کی بندش کے مضمرات میں سے نہیں ہے ؟
دراصل نقص تربیت کا ہے ۔  لبرلز کی جانب سے سیکس کی تعلیم  کی ضرورت پر تو آواز اٹھتی ہے ۔ مگر ایسے بنیادی مسائل کی تربیت پر سماج خاموش ہے ۔ کیونکہ  ماڈرن معاشرہ ایک بیوی شوپیس کے لیے رکھتا ہے ۔ جبکہ  اس کے دوسرے جذبات کی تکمیل اس معاشرے کے  طرز زندگی سے ہوجاتی ہے ۔ عورت بھی خوش مرد بھی خوش ۔ جبکہ عام معاشرے میں  آج بھی  مشرقی تہذیب  کے خدوخال جڑوں میں پیوست  ہیں  بظاہر  جدیدیت کا نعرہ کیوں نہ لگتا ہو ۔  محض خدوخال کے ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل سماج کا حصہ ہیں ۔ کیونکہ ہم  نتیجہ خیزی کی حد تک سوچنے اور عمل کیے جانے  کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔   تعدد ازدواج  کی روایت سے مستفید بھی صاحب حیثیت افراد ہی ہوسکتے ہیں ۔ ہر خاص و عام کے بس کا نہیں ۔ جب صاحب حیثیت افراد مختلف خاندانوں کے ساتھ منسلک ہونگے اس سے معاشرے میں موجود سماجی سختی میں بھی کمی آئے گی۔ ساتھ  ہی  ان سطحی اذہان کی سوچ کا بھی خاتمہ ہوگا جو بیٹی کی پیدائش پر قدرے ناراض دکھائی دیتے ہیں ۔  بیٹی وہ معصوم مخلوق ہے  جس کی جس طرح تربیت کی جائے وہ اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہے ۔ خدارا اس کا یوں  ذہنی استحصال نہ کریں ۔ کسی عبقری نے  کیا خوب فرمایا تھا ۔ " مصائب حالات سے نہیں خیالات سے ہوتے ہیں ۔ "اسلام نہایت آسان مذہب ہے ۔ مگر افسوس اسے انتہائی پیچیدہ بنادیا گیا ۔ جدید ماحول کے جدید انسان کے لیے مسائل مرتب کرنے کی بات تو کی جاتی ہے مگر جو بالذات جبلت سے ماخوذ ہیں ان پر ہی ہماری سوچ نتیجہ خیز نہیں تو بقیہ مسائل پر کیا امید کی جاسکتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...