Thursday, May 25, 2017

جبر

افسانہ 

جبر

شہیر شجاع
.............................

ستاروں پہ کمند ڈالنے ، شاہین جیسی پرواز ،  خودی کے اسرار سے پردے اٹھاتا اس نے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھا تھا ۔ جذبات اپنی اٹھان پر تھے۔ قدم پرجوش ۔ خون میں گرمی کا درجہ حرارت جیسے اپنی دسترس میں آئی ہر چیز کو پگھلا دے ۔ ساتھ ساتھ جوانی کی جبلتیں ، جو اسے متزلزل نہ ہونے دیتیں ۔ آسمان پر ستاروں کو دیکھتا تو جیسے بس کسی بھی لمحے ستارہ اس کی قید میں ہو ۔ چاند اس کا کھلونا ہوجائے ۔ آس پاس ویرانی دیکھتا تو  مسکرا اٹھتا کہ جلد یہ ویرانی سبزہ زار میں تبدیل ہوجائے گی ۔ 

 اس کے ہاتھوں میں فائل تھی جس میں سخت گرمیوں میں چارجنگ لائٹ کی روشنی میں کی گئی محنت  کے نتائج تھے ۔  اس کا دل و دماغ شاہین  کی اونچی اڑان کے تصور میں ہر مشکل کو آسان کرتا آج اس کے اعتماد کو اس کے لیے ایک مضبوط ستون تعمیر کرچکا تھا ۔ وہ اس فائل کو لیے کسی بھی منزل کی جانب جاتا ۔پر اعتماد واپسی ہوتی ۔  اس بات کو اب ایک عرصہ گزر چکا تھا ۔ وہ گلیوں میں کھیلتے معصوم بچوں کو دیکھتا جن کے جسم پر کپڑوں کے بجائے چیتھڑے ہوتے ، اس کے چہرے پر اذیت ناک مسکراہٹ ابھر آتی ۔ اسٹاپ پر کھڑے گاڑی کے انتظار میں ایک جانب آٹو ورکشاپ سے گالیوں کی آواز پر نگاہ پھیرتا ، اس کی نظروں کے سامنے معصوم سا شاہین اپنے استاد کے بھاری بھر کم ہاتھوں کے پڑنے پر اپنے گال سہلارہا ہوتا ۔ یہ منظر اس کے دل کی آگ کو مزید دہکا دیتا ۔ اس کے تصور میں موجود سبزہ بھی مانند پڑنے لگا تھا ۔ ویرانیاں سڑکوں ، گلیوں محلوں سے سفر کرتی اب اس کے آنکھوں میں بھی بسر کرنے لگی تھیں ۔ سخت چلچلاتی دھوپ میں کھڑا جب وہ منی بس کا انتظار کر رہا ہوتا ، اس کے ماتھے کا پسینہ اس کو اپنے موزوں تک پھسلتا محسوس ہوتا ۔  آہستہ آہستہ اس کے کندھے بھی ڈھلکنا شروع ہوگئے ، اس کے ہاتھ میں موجود ستاروں پر کمند ڈالنے کی چابی  بھی  بھاری بھر کم چٹان سی محسوس ہونے لگی تھی ۔ جس کا بوجھ اب اس سے سہارا نہ جاتا ہو ۔ نیم دلانا سڑک پر ٹہلتا اب آسمان کی جانب بھی  نگاہ  نہ اٹھتی ۔اس نے وہ چابی الماری میں سنبھال کر رکھ دی تھی ۔ اور ایک دوست کے توسط سے ہنرمندوں کی جماعت میں شامل ہوگیا تھا ۔ دو وقت کی روٹی کا بندوبست تو ہوگیا مگر اس کے تصورات مین موجود شاہین اب تک غافل نہ ہوا تھا ۔ جو اس کے دل کو لمحہ بہ لمحہ کچوکے لگاتا رہتا ۔ ایک عجب جبر تھا ۔ پروں کے ہوتے بھی پرواز سے عاری تھا ۔ سڑک پر ریڑھی کھینچتے جوان و بزرگوں کو دیکھتا تو دل میں ہوک سی اٹھتی ۔ آنکھوں میں ستارے جھلملانے لگتے ۔ کہاں آسمان کے ستارے کہاں آنکھوں میں جھلمل ۔ وقت کے جبر نے  کس موڑ پہ لا کھڑا کیا تھا ۔ اس کے بابا نے بھی ضعیفی کے برامدے میں ڈیرےڈال لیے تھے ۔ اس کے کندھے اب مزید بوجھ سہہ نہ پارہے تھے ۔ اس کا ہنر اس کے لیے اب مزید کارآمد نہ رہا تھا ۔ بابا سے ذرا پرے دوسری چارپائی پر آنکھیں موندے لیٹا بابا کی کراہوں پر سسک رہا تھا ۔ باورچی خانے سے اماں اور نوراں کی نوک جھونک اس کے حوصلے کی کمر توڑتی جارہی تھی ۔ اگلی صبح بیدار ہوکر وہ سیدھا جمیل کی جانب چلا گیا ۔ جس نے جامعہ سے فراغت کے بعد اپنے بیرون ملک مقیم بھائی کی مدد سے ٹریول ایجنسی کھول لی تھی ۔ وہ اکثر اسے باہر چلے جانے کا مشورہ دیتا رہتا ۔ پر سوکھی زمین کی جانب اشارہ کر کے کہتا کہ اسے سیراب کون کرے گا ؟ اور جمیل خاموش ہوجاتا ۔ آج اس نے جمیل کے سامنے ہار مان لی تھی ۔ جمیل نے اسے قرض و مدد کے سہارے چند ہی دنوں میں پردیس بھیج دیا ۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی وہ فائل تھی ۔ جسے سراہا گیا تھا ۔ وہ اس بلند و بالا عمارت سے باہرنکلا ۔ آسمان کی جانب نگاہ ڈالی دور آسمان کی بلندیوں میں شاہین محو پرواز تھا ۔ اس کے دل میں خوشی تھی یا ویرانی وہ فیصلہ نہ کرپایا ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...