پرندہ
شہیر شجاع
انسان کیوں ہے اور کیوں آیا ہے دنیا میں ؟ یہ اور ایسے سوالات ہر سوچنے والا ذہن سوچتا ہے ۔ کچھ کے پاس عقیدتاً جواب موجود ہےتو کچھ کے پاس عقلاً ۔ یہ الگ بات ہے کہ کون کتنا مطمئن ہے ۔ اور کچھ ان سوالات و جوابات سے ماوراء زندگی کی گاڑی کھینچے جارہے ہیں ۔ پر ان سوالات پر غور کرنے کے لیے پیٹ کا بھرا ہونا بھی شاید ضروری ہے ۔یا پھر اُس معاشرے کی تربیت میں پیٹ کا نمبردوسرا ہو ۔
ہم جیسے پسماندہ ممالک جو عالمی طاقتوں کی نکیل ڈالے چلنے پر مجبور ہیں یہاں کے باشندوں کا پہلا مسئلہ معیشت ہے اور یہمسئلہ کبھی ختم بھی نہیں ہوتا ایسے میں ذہنی پسماندگی انسان کو شارٹ کٹ کی راہ دکھاتی ہے ۔ اور ترقی یافتہ ممالک کے بڑےنوٹ سے لیکر وہاں کی پر آسائش زندگی اپنی جانب مائل کیے رکھتی ہے ۔
پھر کسی دن پرندہ اپنا گھونسلہ چھوڑتا ہے اور اڑ جاتا ہے ۔ اس سے پیچھے رہ جانے والوں کو کتنا فرق پڑتا ہے اس بات سے قطعنظر ایک ہستی کے دل پر پہلی چوٹ پڑتی ہے ۔ اور وہ زخم سلگتا رہتا ہے سلگتا رہتا ہے ۔ جس کا احساس سوائے اس ہستی کے کسیکو نہیں ہوتا ۔ باہر پرندہ بھی مچلتا رہتا ہے مگر جو زخم اس نازک دل میں پیدا ہوا ہے اس کی دوا کا شاید ہی کوئی سوچتا ہو ۔ کیونکہوہ نظروں سے اور احساس سے اوجھل رہتا ہے کیونکہ وہ عظیم ہستی جانتی ہے کہ اس کا درد اگر نظر آجائے تو پرندے اپنا خواب پورانہیں کرسکیں گے ۔ پھر ایک دن وہ زخم ناسور بن جاتا ہے جس کی ٹیسیں پرندہ بھی محسوس کرتا ہے مگر اب بھی دوا سے نامانوسرہتا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک دل گداز خبر اس کا سینہ چیر کر رکھ دیتی ہے ۔ اس کے پیروں تلے زمین سرک جاتی ہے ۔ بے بسی کیکیفیت اس کی زندگی کو لاحاصل بنا دیتی ہے ۔ لاچارگی کے عالم میں احساس محرومی اس کی دھڑکنوں کو طلاطم خیز موجوں میںبدل دیتی ہے ۔ سر پٹکے یا صحراوں میں نکل جائے ، یا پہاڑوں میں پناہ لے ، پرندہ دل سوزی کی ان حالتوں سے آشنا ہوتا ہے جنحالات سے شاید وہ ہستی عرصہ دراز تک پل پل گزری ہو ۔ لیکن اب سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں رہ جاتا ۔ ایک خلا ہے جس نےتاحیات پُر نہیں ہونا ۔ اس خلا نے ہمیشہ اس احساس محرومی کو زندہ رکھنا ہے ۔ جس کو آباد کرنے کے خواہش لیکر پرندے نے اڑانبھری تھی ۔
No comments:
Post a Comment