ان خلدون پر ریسرچ
ڈاکٹر بشارت علی
شعبہ عمرانیات ۔ کراچی یونیورسٹی
علامہ ابن خلدون پر گزشتہ صدی کے آخری نصف حصے سے
بالالتزام اشاعت کتب اور تحقیقات کا آغاز ہوا ، عالم اسلام سے وسیع پیمانے پر
انگریزوں کے تعلقات قائم ہوئے ۔ یہ تعلقات قادیم بھی ہیں ، لیکن اسلامی علوم اور
ثقافت پر بہ تکم کتابیں اس زبان میں شایع
ہوئی ہیں ۔ یہ کتابیں بھی اعلی درجے کی تحقیقات کے کارنامے نہیں ۔ زیادہ تر یہ
کتابیں جرمن زبان سے ماخوذ ہیں یا ان کا براہ راست ترجمہ اس زبان میں کیا گیا ہے ۔
کچھ کتابیں فرانسیسی زبان سے بھی ترجمہ کی گئی ہیں یا ان سے ماخوذ ہیں ۔ چارلس
عیسوی نے جو بیروت کی ایک امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر تھے ایک قابل قدر مقدمہ کے
ساتھ مختلف موضوعات پر مشتمل ابن خلدون کے اقتباسات دیے ہیں ۔ ترجمہ صآف ہے لیکن
بعض مقامات پر اصل مقدمہ کی عبارت نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک گونہ گو تعقید پیدا
ہوگئی ہے اس قسم کی غلطیاں عام بھی ہیں
اور ایک معمولی واقعہ بھی ہے ۔ ترجمہ میں تعقید اور ابہام کے پیدا ہونے کی اصل وجہ
محض سیاق و سباق متن اور الفاظ کے سمجھنے پر موقوف نہیں ۔ بلکہ اسلامی مفکرین اور
علماء کی طرز تحریر ، ثقافتی ذہنیت اور نظام اخلاق کو یہ لوگ نہیں سمجھ سکتے ،
اولا یہ کہ تعصب اور اس سے زیادہ معنی اور مطلب تک رسائی حاصل کرنے میں جو چیز
حائل ہے وہ انداز تحریر اور طرز تکلم ہے ۔ اس کے تین سطوح ہیں ۔ درون بینی سطح ،
برون بینی سطح اور ان سب پر مستولی معنوی یا قدری اور روحانی نظام ہے ۔
انگریزی زبان میں اس قسم کی طرز تحریر کو سطحی اور عمقی طرز تحریر کے نام سے یاد
کیا جاتا ہے ۔ ان دو کی اگر مزید تحلیل کی جائے تو مسلمانوں کی طرز تحریر کی تین
ابوابی قسمیں ہونگی جن کو علی الترتیب
خوردبینی ، کائناتی ، اور استحالوی
یا مابعدی کہا جاسکتا ہے ۔ اول الذکر دو کے تصورات میں وہ الہیاتی اور
مابعد الطبعیاتی متضمنات شامل ہیں جنہیں عام طور ہر کائینات اصغر اور کاینات اکبر
کا نام دیا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ تین ابواب ایک ہی معنوی اور روحانی نظام کے تابع
ہیں ۔ اپنے اس اتحاد کے معنی کے ساتھ آخر کار یہ دونوں استحالوی نظام کے ہمہ گیر
یا ہمہ ابجادی اور ہمہ محیط معنوی جمعیت
اور جامعیت بھی ہے اس قسم کا طرز تحریر
وہی قوم اختیار کر سکتی ہے جس کا تصور کاینات "کل" کے آئیڈیل کے ماتحت
ہو ۔ ظاہر ہے یہ تصورات اسلام میں نتیجہ
ہے اس وجودی معنوی علت کا جس کو توحید کہا جاتا ہے ۔ چارلس عیسوی کا کام تو جزوی
ہے اس لیے اقتباسات کا ترجمہ قارئین کرام کو زیادہ غلطیوں میں مبتلا نہیں کر سکتا
۔ لیکن سب سے زیادہ خطرہ"ارنسٹ روزن تھال " کے حالیہ انگریزی ترجمہ کی
اشاعت سے پید اہوسکتا ہے .
یہ ترجمہ مترجم کے قول کے مطابق ایک مدت کی کدو کاوش
کے بعد کیا گیا ہے ، ترجمہ میں مترجم نے جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں ۔ اصل مفہوم کو
نہ سمجھنے کی بنا پر ابن خلدون کی اصل عبارت کو نہایت ہی الٹے انداز میں پیش کیا
گیا ہے ۔ یہ غلطی کچھ تو نتیجہ ہے ثقافتی
ذہنیت اور مسلمانوں کو مزاج عقلی کو نہ سمجھنے کا اور کچھ خود ابن خلدون کی تحریر
کی مشکل پسندی کا ۔ نہ مشکل پسندی لسانی ہی نہیں معنوی اور متذکرہ تین سطوح کی ایک
جائی کا .
دوسرا سقم اس ترجمہ کا یہ ہے کہ مصنف نے اس پر ایک
مقدمہ لکھا ہے ۔ مترجم کا دعوی ہے کہ اس مقدمہ اور کتاب کی تدوین میں اس نے کئی
سال پاپڑ بیلے ہیں اور کئی مخطوطوں کے مقابلے
سے آخری نسخہ جو کہا جاتا ہے کہ بالکل صحیح ہے شایع کیا ہے اصل مصححہ نسخہ
میں کئی غلطیاں ہیں اور اسی نام نہاد
مصحہحہ کا ترجمہ کتاب کو ساقط الاعتبار بناتا ہے ۔ مقدمہ میں دروغ بانی سے کام لیا
گیا ہے ، تحقیقاقتی مفروضے ، قیاسات ، مقدمے سب غلط ہیں ۔ نیز یہ کہ تعصب اور بغض
اس مقدمے میں عیاں ہے جس کے ذریعے سے ابن
خلدون کی شخصیت کو مسخ کرنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے.
No comments:
Post a Comment