دانشوران ملت
شہیر شجاع
بنت حوا کی لاش نیم برہنہ حالت میں زمین پر
آڑھی ترچھی پڑی تھی ۔۔۔ اس کا جسم اس کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر چیخ چیخ کر
پکار رہا تھا ۔۔۔ لوگ چہ مگوئیاں کر رہے
تھے ۔۔ ایک بولا ۔ اللہ غارت کرے ظالموں کو ۔۔ حکمرانوں کو۔۔
ایک اور آواز ابھری ۔ ۔۔یہ ہمارے ملک کو کیا ہوگیا ہے
۔۔ ہم اس قدر پستی کی جانب گرتے چلے جا رہے ہیں ۔۔
جتنے منہ اتنی باتیں ۔۔
اتنے میں ۔ ایک صحافی ابن آدم آگے بڑھا۔۔
اپنی نیم برہنہ لٹی پھٹی
بہن کی لاش کی تصویر کھینچی ۔۔ اور کہا کہ
میں ساری دنیا کو دکھاونگا کہ ہمارے ملک میں یہ کیا ہورہا ہے ۔۔ تاکہ ذمہ داروں کے
خلاف کروائی ہو اور ایسے واقعات کی روک تھام ہو۔۔
ادیب اگے بڑھا ۔۔ اس نے کہا ۔۔ میں اس واقعے کو
ایک ایک آدمی تک پہنچاوں گا ۔۔ تاکہ لوگوں کو آگاہی ہو ۔۔
سیاست دان آگے بڑھا ۔۔ اس نے کہا ۔۔ ہم احتجاج
کریں گے ۔ یہاں تک کہ انصاف ملے۔۔
بنت حوا کی ماں ایک طرف بیٹھی یہ سارا منظر دیکھ رہی
تھی ۔۔ آس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ وہ آگے بڑھی ۔۔ پولیس نے روکنے کی کوشش کی کہ لاش کی ابتدائی تحقیقات ہونے تک آپ لاش کو نہیں چھو
سکتیں ۔۔۔
ارے کمبخت وہ میری بیٹی ہے ۔ لاش نہیں ۔۔ مجھے کوئی انصاف نہیں چاہیے ۔۔۔ وہ رو رہی تھی ۔۔چیخ رہی تھی۔۔
اپنے سر سے چادر اتاری ۔۔ اور پولیس والے کی طرف
پھینک کر چلائی کہ کم از کم میری بیٹی کو اس سے ڈھانپ دو ۔۔ اور غش کھا کر گر پڑی ۔۔۔
No comments:
Post a Comment