اسلامی نظریاتی کونسل اور حقوق نسواں بل ۔
شہیر شجاع
اسلامی
نظریاتی کونسل نے پہلی مرتبہ غالبا ً ۔۔۔ حقوق نسواں بل کے نام سے ایک ماڈل پیش کیا
۔۔۔ اور تقریباً وہ تمام شقیں شامل کردیں ۔۔ جن پر مذہبی طبقات کو مورد الزام ٹہرایا
جاتا تھا کہ وہ ان امور پر بات کیوں نہیں کرتے ۔
مثلاً
۔۔ مرتد عورت کی تعزیر ۔۔۔ پر واضح رائے دی گئی کہ ۔۔۔ اسے قتل نہیں کیا جائے گا
۔۔۔ بلکہ تین دن کی مہلت دی جائے گی ۔۔۔
اسی
طرح ۔۔۔ خواتین کو بزور مذہب تبدیل کرانے والے کو تین سال قید کی سزا دی جائے گی
۔۔۔ یہ کوئی اتنا اہم نقطہ نہ تھا ۔۔ نہ ہے ۔۔ کیونکہ ہمارا آئین ہو یا اسلام ۔۔ اس
میں مکمل مذہبی آزادی ہے ۔۔ چونکہ اس قسم کی منفی تعبیرات کا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا
ہے ۔۔ تو کونسل نے اس جملے کو واضح کیا ۔۔۔
اس
کے ساتھ ۔۔ اس سوچ کی بھی نفی کی گئی جس میں ۔۔ مذہبی لوگوں پر الزام عائد کیا جاتا
ہے کہ ۔۔ وہ شادی پر عورت کی مرضی کے عمل دخل کی نفی کرتے ہیں ۔۔۔ سو ایک شق شامل کردی
گئی کہ ۔۔۔ ہر بالغ لڑکی ولی بغیر خود نکاح کر سکے گی ۔۔
پھر
غیرت کے نام پر قتل ۔۔۔ کاروکاری ، قرآن سے شادی جیسے امور جو کہ کونسل کے لیے ضروری
نہیں تھا ۔۔ مگر چونکہ مذہب سے جڑے افراد کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ وہ ان
امور پر بات نہیں کرتے ۔۔۔ تو ان تمام نقاط کو اپنی سفارش میں شامل کر کے اپنا موقف
واضح کردیا ۔۔۔۔
یہ
سفارشات 163 دفعات پر مشتمل ہیں ۔۔۔۔۔ مگر میڈیا کی زینت بنی بھی تو یہ شق کہ ۔۔۔ عورت
پر ہلکے تشدد کی اجازت ہوگی ۔۔۔۔
اور
بقیہ 150 سے زائد دفعات کی مٹی پلید ہوگئی ۔۔۔۔۔
ہمارے
معاشرے کے اہل علم میں خصوصا دو طبقات ہیں ایک مذہبی اور دوسرے لبرل ۔۔۔ مذہبی اہل علم میڈیا کی زینت کبھی نہیں بنتے
۔۔۔۔ اور نہ عام اہل دانش کی ان کی تحقیقات
پر نظر ہے ۔۔۔ جو مذہبی اسکالرز کی جانب سے عمل پذیر ہوتی ہیں ۔۔ یہاں تک کہ ۔۔ بقیہ
دنیا ان ریسرچ سے فوائد سمیٹ رہی ہے ۔۔۔ جس کی زندہ مثال ۔۔ اسلامی بینکاری ہے ۔۔۔
۔۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے ۔۔ جیسے دانش سے
(intution)کشف
تک
کے سفر کی بنیاد بھی یہی میڈیا ہے ۔۔۔ جس کے پاس کوئی ایسا اسٹرکچر نہیں جس سے معاشرہ
اعتدال کی جناب گامزن ہو ۔۔ اور اہل علم کے آپس میں
)Interaction(
کی
فضا بنے ۔۔۔ ۔۔۔
یہاں
ایک بات تو واضح ہو گئی ہے ۔۔۔ کہ لبرل کا نعرہ لگانے والے کبھی عورت کا تشخص اور نہ
ہی اسے حقوق مہیا کرنے پر مخلص تھے نہ ہیں
۔۔۔۔ اس کا استحصال ایک تو جہالت زدہ معاشرے میں ،دوسرا تہذیب کے نام پر اس کا استحصال
ہوتا رہے گا ۔۔۔مذہبی اسکالرز تو تختہ مشق ہیں ۔۔ ۔