عوامی شعور پر عمران خان کا کردار
شہیر شجاع
اتنی بات سے اتفاق تو شروع سے ہی تھا کہ تربیت بنا تقدیر
نہیں بدلتی ۔ عمران خان اپنی پارٹی کے کارکنوں کی ہی تربیت نہ کرپایا سونے پہ
سہاگہ یہ ہوا کہ ۔۔۔ اپوزیشن کا کردار بھی
اس کا منفیت کا شاخسانہ نظر آنے لگا ۔ کیونکہ اس نے
قوم کے ذہن کو پڑھنے اور اس کے مطابق چلنے
کی کوشش نہیں کہ اور اس رومان کو ترجیح
دی جس میں دو شخصیتیں مد مقابل ہوگئیں اور
نظریے کا تصور محض چند اذہان تک محدود ہو
کر رہ گیا ۔ اپوزیشن احتجاج کا مکمل
استحقاق رکھتے ہوئے بھی اخلاقی طور پر نامقبولیت کی جانب بڑھتی جا رہی ہے ۔ بڑے سے
بڑا مسئلہ بھی شخصی مسئلہ بن کر ابھرتا ہے ۔۔۔ جس کا نقصان
بہر حال عوام کو ہی ہورہا ہے ۔ کیونکہ ہم بنیادی طور پر شخصیت پرست ہی واقع ہوئے
ہیں ۔ ہندوستان کے باسی کبھی شاہجہاں کے
دبدبے سے نہایت ہی متاثر تھے ۔ یہاں تک کہ بہادر شاہ ظفر کی ایک قلعے کی سلطنت کے بعد بھی اپنے آپ کو اسی کی رعایا
تصور کرتے تھے باوجودیکہ انگریز ہندوستان
میں مکمل طور پر اپنی گرفت مضبوط کر چکا تھا ۔ جب ہندوستانیوں کو اپنا لیڈر چننے کا موقع آیا تو ان کی نظر باہدر شاہ ظفر کے سوا کسی جانب نہیں اٹھ سکی ۔
انہیں باہدر شاہ کے سوا اور کسی میں یہ قابلیت نظر ہی نہ آئی ۔ کیونکہ اس وقت بھی
شعور کا یہی عالم تھا تربیت مفقود تھی ۔ آج
بھی یہی حال ہے ۔ عمران خان کے پاس موقع تھا بلکہ اب بھی ہے مگر وہ اپنے
خول سے باہر نہیں آنا چاہتا ۔ پاناما لیکس جیسا مسئلہ اس کے ساتھ ساتھ ہر دوسرے دن
ایک بڑے کرپشن کا راز فاش ہوتا ۔ ہر ایک جانتا ہے زرداری چور ہے ، میاں صاحب کے کرپشن بھی زبان زد عام ہیں ، ڈار صاحب کے
میگا کرپشن ایک عرصے سے گردش میں ہیں
۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ سوالات ہر خاص
و عام اٹھاتا ۔ مگر ہوا یہ کہ ان سوالات کا ذمہ دار عمران خان قرار پایا ۔ اور
شخصیت کی بنا پر اپوزیشن کا کردار کیں دور جا بیٹھا ۔ عوام کے مزاج سے اپنے حقوق
کی آواز بلند کرنا کہیں پیچھے ہی رہ گیا ۔۔ اور مزاج میں جستجو آئی بھی تو اس امر
کی کہ مخالف کا کمزور نقطہ ہاتھ آجائے ۔ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری عمران خان پر
عائد ہوتی ہے ۔ اسے موقع ملا تھا ۔ اسے پذیرائی ملی تھی ۔ لوگوں نے اس سے امیدیں
باندھی تھیں ۔ فی الحال عمران خان محض ایک ٹمٹاتی لو کی مانند ہے کہ اب بجھی کہ اب
بجھی ۔ لوگ یک ٹک اس لو کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ یہ لو شعلہ بنتی ہے یا مانند
پڑجاتی ہے ۔
No comments:
Post a Comment