تربیت اولاد کا ایک بنیادی نقطہ
شیر شجاع
روز مرہ کے معمولات میں اکثر اوقات ہماری توجہ کا مرکز بچے ہوتے
ہیں ۔ ان کے ساتھ کھیلنا انہیں کھلانا ، پڑھانا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہاں بہت اہم امر ان کی
تربیت اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہے ۔ جس جانب توجہ تو ہوتی ہے مگر طریقہ کار ایسا
اختیار کیا جاتا ہے جو کہ بہتری کے بجائے تنزلی کا ہی باعث بنتا ہے ۔
ایک مثال اس کی یہ ہے کہ ۔۔۔۔ اسے مختلف چیزیں رٹائی جاتی ہیں ۔ اس کے بعد اپنے
احباب کے سامنے اس سے سوال کیا جاتا ہے ۔
کہ بیٹا فلاں کیا ہے یا فلاں کا مطلب کیا ہے ؟
بچہ کچھ دیر سوچنے لگتا ہے ، اور یہ فطری امر ہے کیونکہ انسان
کی اپنے بقیہ حیوانات میں جو خصوصیت جداگانہ ہے وہ غورو فکر ہی ہے ۔ اور یہ انسان میں
بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔ الا یہ کہ اسے ظاہر کیا جائے ابھارا جائے ۔ مگر ابھی وہ
ننھا منا پودا ہی ہوتا ہے ۔ اس کی اس گراں قدر صلاحیت کو اس کی ناقابلیت کے طور پر
اسے باور کرایا جاتا ہے ۔
یہاں سوال ہو اور یہاں جواب دیا جائے ۔۔ یہی کامیابی کی دلیل
اس کے ذہن کے گوشوں میں سرایت کرتی جاتی
ہے ۔
جیسے ہی بچہ سوچنے لگتا ہے ۔ سوال کرنے والے کو ہتک محسوس ہوتی ہے ، اور اسے
مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ۔۔ فوری جواب دیا جائے ۔۔ اور یہی طبیعت آہستہ آہستہ
بچے کا مزاج بن جاتی ہے ۔۔
ہمیں چاہیے کہ بچے کو سوچنے دیں بلکہ کوئی بھی جواب فوری اگر
مل جائے تو الٹآ مجبور اس بات پر کیا جائے کہ بچہ پہلے کچھ دیر سوچے غور کرے اس کے
بعد جواب دے ۔ جب طبیعت میں جواب معلوم ہونے پر بھی مزید غور جس کو ہم صبر بھی کہہ
سکتے ہیں ۔۔ کا مادہ پیدا ہوجائے گا تو یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مزید قوی ہوتا جائے
گا ۔
No comments:
Post a Comment