زینت
شہیر شجاع
عصر
کا وقت ۔۔۔۔۔۔۔ کھڑکي سے چھن چھن کرتي دل کو مسحور کرتي روشني کمرے میں پھیل کر طبیعت کو آسودہ کر رہی تھی ۔۔ یہ روشنی ہمیشہ سے ہی دل
کو چھوتی رہی ہے ۔۔ اور اکثر یہ وقت میں اپنے کمرے میں ہی گزارنا چاہتا ہوں ۔۔ سامنے
میری میز پر میرا لیپ ٹاپ کھلا ہے ۔۔۔ میں اس موسم کو لفظوں میں اتار دینا چاہتا ہوں
۔ مگر مجھے الفاظ نہیں مل رہے ہیں ۔ اس کیفیت نے ذرا سی تلخی سی پیدا کردی ہے ۔ سرد
آہ بھر کر میں نے اپنے آپ کو کرسی پہ گرالیا اور ہاتھوں کو اپنے سر کے پیچھے ٹکالیا
ہے ۔۔۔ اور چھت کو گھورنے لگتا ہوں ۔۔۔ مجھے
زینت کا خیال آتا ہے ۔بلکہ آج کل اسی نے میری سوچوں پر ڈیرا جمایا ہوا ہے
۔۔۔ وہ ہمارے گھر کے کام کاج کرنے آتی ہے
۔خاموش سی رہتی ہے ۔ اپنے کام سے کام رکھتی ہے ۔ لیکن اپنے کام کو سلیقے اور قرینے
سے انجام دیتی ہے ۔ اس کو دیکھ کر مجھے کام اور وقت کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے ۔ میرے
لیے وہ ایک حوصلے کی مانند ہے ۔
سر
میں کوشش کرتی ہوں آپنا کام درست طریقے سے انجام دوں ۔ اگر کوتاہی ہو تو معافی چاہتی
ہوں ۔ بس تنخواہ مجھے وقت پر دے دیا کریں ۔
ایک
مرتبہ تنخواہ دینے میں مجھ سے دو دن کی تاخیر ہوگئی تھی ۔ تو اس نے پہلی مرتبہ مجھ
سے کوئی بات کی تھی ۔ جو شکایت تھی یا تقاضہ ، پتہ نہیں ۔ مگر اس ایک جملے میں زینت
میرے لیے ایک سوال ہوگئی تھی ۔ اس کے لہجے کی شائستگی اس کو جاننے کا تجسس پیدا کر
رہی تھی ۔
سوری
ڈئر ۔ آئندہ تاخیر نہیں ہوگی ۔ یہ میرا انداز تو نہیں ۔ لیکن یہ لہجہ اپنانے پر اس
نے مجبور کردیا تھا ۔
شکریہ
سر ۔ اور وہ پلٹ گئی تھی ۔
میں
کافی دیر ۔ اس کے بارے میں سوچتا رہا تھا
۔۔
اس
دن وہ آئی نہیں تھی ۔ میرا گھر اس کی کمی شدت سے محسوس کر رہا تھا ۔ رات میں سو بھی
نہیں پایا ۔ اسی کے بارے سوچتا رہا ۔۔۔ ااگلا
دن اتوار کا تھا ۔ آج تو چھٹی تھی ۔۔ مگر مجھے آفس جانا تھا ۔۔ ہر اتوار کو زینت صبح
ہی آجایا کرتی تھی ۔۔میں نے تاخیر کرنا مناسب
سمجھا کہ وہ آجائے تو ہی جاوں گا ۔۔ مگر کافی دیر انتظار لاحاصل رہا تو ۔۔ مجھے فکر
ہونے لگی ۔ اپنا سیل فون نکالا ۔ مگر اسے واپس رکھ دینا پڑا ۔۔ کیونکہ اس کے پاس فون
تھا نہیں ۔ اس کے گھر کا بھی علم نہ تھا ۔ مگر ایک مرتبہ اس نے اپنے محلے کا ذکر کیا
تھا ۔
میں
باہر نکلا ، انجن اسٹارٹ کیا ، مگر میری منزل زینت کا محلہ تھا ۔ کیوں تھا ؟ اس کا
مجھے بھی علم نہ تھا ۔" شاید میں ۔۔روما۔۔ کو مس کرتا تھا ؟ روزانہ میری اور اس
کی تو تکار لازمی تھی ، آخر کار ایک دن جب میں گھر واپس آیا تو ۔ وہ گھر پر نہیں تھی
، میں فون کیا تو ۔ اس نے آنے سے انکار کردیا تھا ۔ اور میں بھی غصے میں چند ہی دنوں
میں اسے کاغذات ِ مردانگی ۔۔۔ بھجوادیے تھے ۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوا کیا نہیں۔۔ مجھے
کوئی خبر نہیں تھی ۔۔ میری بیٹی بھی اسی کے پاس تھی ۔۔ میری انا نے مجھے اپنی بیٹی
سے ملنے پر بھی پابندی لگا رکھی تھی ۔۔
زینت
کے محلے میں پہنچ کر میں یہاں وہاں دیکھ رہا تھا ۔ اس طرح سے مجھے مایوسی ہی ہونا تھی
۔ چند لوگوں سے اس کی بابت معلوم کیا تو اس کے گھر کا پتہ مل گیا ۔ کچھ تو بات تھی
۔ میں نے ایکسیلیٹر پر پیر رکھا ۔ اور گلیوں میں دائیں بائیں مڑتا ۔ اس گلی تک جا پہنچا
۔ وہاں ایک جانب چند لوگ جمع تھے ۔ آپس میں کھسر پسر جاری تھی ۔ فضا میں سوگواری سی
طاری تھی ۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک خوف کی رو آرہی جارہی تھی ۔ میں نے بمشکل اپنی
حواس باختگی پر قابو پایا ۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے ۔ آگے بڑھا ، معلومات کرنے پر
یقین ہوگیا کہ یہ زینت کا ہی مکان ہے ۔ اور یہاں فوتگی ہوگئی ہے ۔ میرے پسینے چھوٹ
رہے تھے ۔مدہم قدموں سے میں اندر جاتا ہوں ۔ چند عورتوں کے درمیان زینت اپنے ننھے ننھے
بچوں کو گود میں دبائے ۔ سر جھکائے بیٹھی ہے ۔ اس کا چہرہ سپاٹ ہے مگر آنکھیں سوجی
ہوئی ہیں ۔ میں اس سے نظریں نہیں ملاپاتا ہوں ۔ تھوڑی ہی دور ۔ ایک کفن میں ملبوس ایک
میت رکھی ہے ۔ جس کے سرہانے دائیں بائیں اگر بتیوں کا دھواں اٹھ رہا ہے ۔ مرد حضرات
سر پر ٹوپیاں ڈالے اطراف میں ڈیرا جمائے ہوئے ہیں ۔۔ میں بھی ایک طرف بیٹھ جاتا ہوں
۔۔ لوگ آرہے جارہے ہیں ۔۔۔ میں ساکت بیٹھا رہتا ہوں ۔ سرگوشیوں اور لوگوں کی آپس کی
باتوں سے علم ہوتا ہے ۔ یہ زینت کا مرد ہے ۔۔ جو کچھ عرصے سے کینسر کی زد میں تھا
۔۔ اور اسپتال میں زیر علاج تھا ۔ اسی کے علاج کی خاطر زینت نے اپنے رات دن ایک کیے
ہوئے تھے ۔۔ دن میں کسی آفس میں کلرک تھی ۔ وہاں سے واپس آکر لوگوں کے گھروں کے کام
کاج کرلیا کرتی تھی ۔۔ میری آنکھون کے سامنے جیسے اندھیرا چھا گیا تھا ۔ بد حواسی کے
عالم میں وہاں سے اٹھا ، کب اور کیسے باہر نکلا علم نہیں ۔ گاڑی کب اسٹارٹ کی پتہ بھی
نہ چلا ۔ میرا رخ میرے گھر کی جانب تھا یا روما کے گھر کی جانب ۔۔ پتہ نہیں ۔۔۔زینت
اس کے بچے شاید میرے حواس پر قبضہ جما چکے تھے ۔
No comments:
Post a Comment