Tuesday, May 3, 2016

اپنا خاکہ



اپنا خاکہ

شہیر شجاع 

 جب ہم نے اپنے بابا جان سے اپنی ولادت کی بابت استفسار کیا تو ۔ چند لمحے کو ابا جی  ہمیں دیکھ کر مسکرا تے رہے ۔  پھر یوں گویا ہوئے ۔ بیٹا آپ کے دنیا میں  آتے ہی ہمارے قدم تو زمین پر ٹکتے نہ تھے ۔  پاگلوں کی طرح ہم ہر ایک کو یہ خبر سنائے جاتے اور مٹھائیاں بانٹتے جاتے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سارا شہر بھی آپ کے آنے کی خوشی میں بقعہ نور بنا ہوا ہے چراغاں ہی چراغاں ، جلوس در جلوس ۔  ہم نے سوچا کہ ہمارا ولی عہد کچھ خآص ہے اور ہماری خوشی مزید دیدنی ہوتی گئی ۔ اب خبر کے ساتھ اس چراغاں کا بھی ذکر خآص کرتے دن بیت گیا ۔ اگلے دن جب بابا جانی اپنی ڈائری میں ہماری انٹری کو صفحہ قرطاس کے سپرد کر کے تاریخی کرنے چلے ۔ دن جمعہ اور تاریخ ہجری جب دیکھی تو وہ ۔۔۔ بارہ ربیع الاول  کی تاریخ تھی ۔۔ جھینپ سے گئے اور اگلے دن ذرا لوگوں سے کنی کتراتے رہے ۔
خیر سے ذہین و فطین واقع ہوئے ہیں ۔ یہ ہم نہیں کہتے یہ ہمیں بچپن سے ہی ہمارے بڑے اور اساتذہ کہتے رہے ۔۔۔ جس کا خاطر خواہ نتیجہ یہ نکلا کہ ۔ آج ذہین و فطین ماضی تک ہی محدود ہو کر رہ گیا اور ہم ذہین و فطین بنا تنہا ۔ اس تنہائی کو کہیں نہ کہیں تو بانٹنا ہی تھا ۔ سو اس کے لیے مختلف عوامل  زندگی میں آتے رہے ۔ کہیں مذہب ، تو کہیں ادب ، کہیں سیاست ۔ سو ہم نے کسی بھی سلسلے میں اپنے آپ کو نتھی کرنے سے باز آنا مناسب نہ سمجھا ۔ نتھی کیا بھی تو ایسا کیا  کہ پہلے شدت پسند کہلائے ۔ جب اندازہ ہوا واقعتا مزاج میں شدت آگئی ہے تو ماضی سے کچھ ذہین و فطین  کے سلسلے کی کڑی جس کا نام  عقل ہے اسے ادھار لیا ۔ کہ شاید کچھ کام چل جائے سو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مزاج سے نظریاتی شدت  ختم ہوگئی ۔  
خیر سے زندگی کا دورانیہ اب تک  مختصر ہے  بلکہ جب آخری ہچکی  آئے گی تب بھی اندر سے اک آواز آئے گی بس ؟؟ اتنی مختصر حیات ۔۔۔ جسے ہم حیات جاوداں نہ بنا سکے ۔ مگر اب تک بھی جو حیات گزری ہے اسے حیات یہ جا وہ جا ۔۔ تو کہا جا سکتا ہے ۔ ایسی اتھل پتھل تو شاید سمندر کی لہروں میں بھی نہ ہوں ۔ جو ہمارے دن و رات کے سے ہفتے مہنیوں کے مابین ہوتی ہے ۔ اس زور سے پٹخنی پڑتی ہے کہ ۔۔۔۔ چک دے انڈیا کا گانا گانا پڑتا ہے ۔ جس کا  اثر میرے بجائے زمانے پر ہوتا ہے اور وہ   ہمیں ایک مرتبہ پھر اچک لیتا ہے ۔ دوست احباب کہتے ہیں  کہ ہم بہت ہی بردبار واقع ہوئے ہیں ۔ جبکہ گھر  والے سمجھتے ہیں ہم غصے کے بہت تیز ہیں ۔ اب ہم کس کی بات کا یقین کریں ۔ سو یہ ہم انہی پر چھوڑ دیتے ہیں جو ہمیں جانتے ہیں ۔   اکثر دوست تنہائی پسند ہونے کا دعوی کرتے ہیں مگر ہم نے کبھی انہیں تنہا دیکھا نہیں ۔ ہم تو بالکل بھی دعوائے تنہائی پسندی  نہیں کرتے بلکہ دوست احباب کے  جمگھٹے میں رہنا پسند کرتے ہیں ۔ نتیجتاً  اکثر اوقات ، جی بعض اوقات نہیں ، اکثر اوقات خون کے گھونٹ پینا کے محاورے کو عملی جامہ پہناتے رہنا پڑتا ہے ۔ دیکھیں ناں احباب کی توسیع پسندی کا یہ تو فائدہ ہے کہ بندہ صبر کرنا سیکھ جاتا ہے ۔ جبکہ معاشرہ صرف سنانے کا روادار ہو سننے کی تمنا کا کوئی طالب یا مجاز نہ ہو ۔ 
جب اپنے سراپے پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو جیسے دودھ کے دانت بھی نہ گرے ہوں ۔ اور پھر احباب کی ہر موقع پر پر خلوص نصیحت ہمیں مخمصے میں ڈال دیتی ہے کہ ۔۔۔ بھائی شادی تو کر لو ۔۔ کیا بڑھاپے میں کروگے شادی ۔ اور ہمیں سر کھجاتے ہی بنتی ہے  کہ ابھی عمر ہی کیا ہے ؟ دل کی بات پوچھیں تو ان کی نصیحت سن کر اعصاب جواب دینے لگتے ہیں کہ چیخ پڑوں کہ نصیحت نہ کرو ۔۔ کڑی پکی کرو ۔  محبت ہی ہمیں راس ہے مگر محبوب کا ہمسفر ہونا ہمیں راس نہیں ۔ نہ جانے  کتنے فسانے رقم ہوچکے ۔ مگر ہم بھی ضدی واقع ہوئے ہیں محض گمان میں  ۔ ورنہ گھر  کا سب بڑا بیٹا ہونا ضد کی ضد ہے ۔  آپ ضد کرسکتے ہیں مگر ضد کو منوا نہیں سکتے ۔ یہ صرف اس وقت تک ہی  باعث تسکین ہے جب تک آپ کے ہاتھوں میں فیڈر ہے ۔ جہاں فیڈر کی جگہ آپ کے ہاتھوں میں لقمہ آیا ۔۔ ۔وہاں  آپ کے اطراف میں رائی کے پہاڑ کھڑے  ہونگے اور خواہشات کی عینک تلے بصارت انہیں پہاڑی چٹانوں سے کم کبھی محسوس نہیں کرے گی ۔ مگر ہوتے تو رائی کے پہاڑ ہی ہیں ۔ مسلسل مسطح ہوتے چلے جاتے ہیں علم ہی نہیں ہوتا ۔ یہاں تک کہ  ایک وقت آتا ہے جب آپ ہر ایک سے کہتے پھرتے ہیں ہمیں نصیحت ، خود میاں فضیحت ۔  ابھی کالج چھوٹا نہیں تھا کہ  پردیس کا سندیسہ آگیا ۔ وہ سندیسہ کم  اسلام آباد میں بم دھماکہ زیادہ تھا  کہ کراچی کے بم دھماکے تو اب معمول کا حصہ جیسے ہیں ۔ کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ۔ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ یار یہ شور سا کیا ہے ؟ تو جواب ملتا ہے بس یار وہی بم بلاسٹ ۔ اور زندگی چلتی ہی رہتی ہے ۔  خیر سے  پردیس سدھار گئے  ۔ سمجھتے تھے کہ عرب میں سعودی عرب وہ ملک ہے جہاں اسلام کا نام نامی ہے ۔ مگر وہاں سارے  خام ، خامی ہی ملے ۔ ائر پورٹ  میں اترتے ہی عربوں سے جو پالا تو حیرت کے پہاڑ سے ٹوٹ پڑے ۔ کہ سوچتے تھے  کہ وہان سارے لمبی لمبی داڑھیوں والے ۔ بڑی بڑی پگ والے ہوتے ہونگے ۔ سنتے تھے کہ یہاں عورتوں سے بڑی زیادتیاں ہوتی ہیں ۔ مگر یہاں مردوں کو بنا داڑھی ، مغربی لباس اور عورتوں کو کام کرتے دیکھ کر ۔۔۔ حیرت کے پہاڑ ہمارے سر پر گر گئے ۔ بس اتنا ہی تھا کہ اس پہاڑ  کو سہہ جانے کی سکت ابھی اس  پنجر میں موجود تھی ۔
جیسے جیسے سعودیہ کے حالات  سے آگاہی ہوتی گئی ویسے ویسے ذہن کے پردوں  میں کئی حقائق واضح ہوتے گئے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو شاید ہم ابد تک اس پہاڑ کی تاک میں رہتے جو ائر پورٹ  میں ہمارے سر پر ٹوٹے ۔  ذہن میں بہت سے حالات و عوامل یکدم گردش کرنے لگیں تو وہ دماغ کی دہی ہونے کے محاورے کی سمجھ عطا کرتے ہیں ۔ اب دہی کھٹی ہے کہ میٹھی اس کا اندازہ تب ہی ہوتا ہے جب کسی حل طلب نتیجے تک پہنچا جائے ۔ سو ہم ہیں اور ہماری دہی ہے اور منزل دہی کا ذائقہ چکھنا کہ آیا کہ وہ میٹھی ہے کہ کھٹی ؟

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...