قربانی اور بیتا منظر
شہیر شجاع
ذوالحجہ کا مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو عالم اسلام میں ایک
ہلچل شروع ہوجاتی ہے ۔ جس کی جس قدر استطاعت ہو وہ اس قدر اپنے ایام کو عبادات کے
لیے وقف کردیتا ہے ۔ جیسے کہ ذوالحجہ کی
پہلی تاریخ سے لیکر یوم عرفہ تک کے روزے
رکھنا ۔ قربانی کرنا ۔ حج کرنا ۔ یہ تین عبادات خاص ہیں ۔
تقریبا صاحب حیثیت افراد قربانی کا فریضہ تو ضرور انجام دیتے ہیں ۔ اور
حج کی استطاعت والے افراد مہینوں پہلے سے ہی حج کی تیاریاں شروع کردیتے
ہیں ۔ عبادات تو ہر مذہب کا فرد کرتا ہے ۔
مگر عبادت کا لطف اور اس کا حقیقی رس اسی
وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ہر اس عمل کا مکمل علم ہو ۔ مگر ہم اکثر چھلکوں
پر خوش ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ شاید آج ہم
بندگی خالق سے زیادہ سماج میں
عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے کو
محبوب رکھنے لگے ہیں ۔
دین ابراہیمی
میں پہلونٹے بچے کو معبد کی بھینٹ چڑھادیا جاتا تھا ۔ یعنی اسے عبادت گاہ کی نذر کردیا جاتا تھا جہاں
اس کی ساری زندگی خدائی خدمت گار کی حیثیت سے گزرا کرتی ۔ جس دن سے بچہ پیدا ہوتا اس دن سے اس کے بال
نہیں منڈوائے جاتے یہاں تک کہ وہ دن آپہنچتا جس دن اسے معبد کی نذر کیا جانا ہوتا
۔ اسے معبد میں لا کر اس کے بال کترتے ۔
اس کو غسل دیتے ۔ یہ وہی سنت ہے جس کی
ایام احرام میں آج بھی پابندی کی جاتی ہے ۔ اللہ جل شانہ نے ابراہیم علیہ السلام
سے جب ایک بہت بڑا کام لینے کا ارادہ کیا
، جس کے بعد دنیا والوں کے لیے ایک عظیم
الشان مثال قائم ہونی تھی ۔ رب ذوالجلال
اور اس کے پاکیزہ بندے کے تعلق کی تمثیل
ہونی تھی ۔ اللہ جل شانہ نے پکارا ۔
یا ابراہیم ۔
اللہ جل شانہ کی
پکار ہو ۔ بندہ بھی وہ جس کی آل اولاد میں
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہونا ہو ۔ وہ کیسی ہستی ہوگی ؟
فورا پکار اٹھے ۔ لبیک ۔میں حاضر ہوں ۔ اس لبیک میں اطاعت کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجزن
ہے ۔
اور یہ لبیک وہی لبیک ہے جو آج حج کے دوران ہر عبادت گزار پکارتا جاتا ہے ۔
اس لبیک کی صداوں سے مکہ معظمہ گونجتا رہتا ہے اور اس کی تقلید میں
سارے جہاں میں آباد مسلم مچل جاتے ہیں اور اس ورد کا گردان کرتے ہیں ۔ یہ وہی لبیک
ہے ۔ جس میں عظیم تسلیم و رضا لپٹی ہوئی ہے ۔ غیر متزلزل رضا ۔ خالق و مخلوق کے مابین ۔ آزمائش کی ابتداء ہوتی
ہے ۔ آپ علیہ السلام کو خواب میں اپنے
محبوب ترین بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ہوتا ہے ۔ آپ علیہ السلام ذرا رنجیدہ ہوتے ہیں پر رضائے الہی
کے سامنے ان کا رنج لا یعنی ٹہرتا ہے ۔ اپنے محبوب بیٹے اسمعیل علیہ السلام
سے اللہ جل شانہ کے حکم کا ذکر کرتے ہیں ۔ بیٹا بھی کون ، اسمعیل علیہ السلام ، جن کے ذریعے سے اللہ جل شانہ نے ایک عہد قائم
کرنا ہے ۔ جس سلسلے سے اللہ جل شانہ نے اپنے
محبوب ترین انسان کو پیدا کرنا ہے ۔ رحمت
اللعالمین کو مبعوث فرمانا ہے ۔ ان کی تسلیم و رضا کا کیا عالم ہوگا ؟
آپ نہایت ہی عزم و استقلال
کے ساتھ گردن جھکا دیتے ہیں ، اور
اپنے آپ کو رضائے رب ذوالجلال کے آگے
سرنگوں کردیتے ہیں ۔ فلک بھی دم بخود اس
منظر کو دیکھتا ہوگا ، ہوائیں کانپ جاتی ہونگی ، زمین لرز جاتی ہوگی ۔ یہ کیسے
بندے ہیں ؟ کہ بس ابھی ایک باپ نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دینی ہے ۔ اور وہ
خون جذب کرنے کی ہمت یہ زمین اپنے آپ میں
نہ پاتی ہوگی ۔ یہ اسمعیل علیہ السلام کا خون ہے ، جو کہ نہایت ہی جلیل القدر باپ
کے ہاتھوں گرنے والا ہے ۔ اس خون میں دنیا
و مافیہا سے ماورا تسلیم و رضا لپٹا ہوا ہے جس کی مثال دنیا نے اب تک نہ دیکھی
ہوگی ۔ آپ دونوں قربان گاہ کی جانب محو
سفر ہیں ۔ عالم مبہوت ہے ۔ شیطان کیونکر ایسے وقت میں خاموش بیٹھا رہ سکتا ہے ۔ وہ وسوسے ڈالنے پہنچ جاتا ہے ، آپ علیہ السلام اسے
کنکریاں مار کر بھگاتے ہیں ، سبحان اللہ اور ان مقامات کو بھی اللہ جل شانہ نے ابد
فرمادیا ۔ حج کے ارکان ان مقامات پر اس سنت ابرہیمی علیہ السلام کی تکمیل کے بنا
مکمل نہیں قرار پاتے ۔ آپ مروہ پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ قربان گاہ ہے ۔ یہاں امت
ابراہیم قربانی سے پہلے بار بار چکر کاٹا
کرتے تھے ۔ کہا جاتا ہے صفا مروہ کی سعی اسی سنت کی یادگار ہے ،واللہ اعلم ۔ قربان گاہ مگر مروہ ہے کیونکہ قربانی معبد کے
لیے دی جاتی تھی اور مروہ کعبہ کے ساتھ ہی
ہے ۔ ( اب جگہ کی کمی کی وجہ سے منی منتقل کردی گئی ہے ) ۔
باپ چھری تیز کر رہے ہیں ۔ بیٹا بڑے ہی چاہ سے اپنے باپ سے مخاطب ہوتا ہے ۔
ابو آپ اپنی آنکھوں
پر پٹی باندھ لیجیے ، کہیں کسی بھی لمحے
آپ پر میری محبت نا غالب آجائے ۔ باپ اپنے
بیٹے کی جانب تحسین آمیز نظروں سے دیکھتا ہے ۔ کیا سپردگی کا عالم ہے ۔ چھری کی دھار مزید تیز ہورہی ہے ۔ باپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا ہے ۔
اور پھر ۔۔۔
اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ چھری چلا دیتا ہے ۔
ایسی تسلیم و رضا ، ایسی سپردگی ، حب الہی
، اطاعت رب ذوالجلال ، رضائے خالق
کی مثال کو خالق کائینات اللہ جل
شانہ کو کس قدر پسند آئی ہوگی ؟ کہ اس سنت کو اس سپردگی و رضائے الہی کی مثال کو
قیامت تک کے لیے جاری فرمادیا ۔ جو آج مسلمان قربانی کی سنت ادا کرتے ہیں ۔ اس کے
پس منظر میں کتنی عظیم مثال ہے ۔ اس مثال
کو سینے میں جلا بخشتے ہوئے جب مسلم ،
جانور کی گردن میں چھری پھیرے تو اس کے جذبے کا کیا عالم ہونا چاہیے؟
آپ علیہ السلام اپنی پٹی اتارتے ہیں ، کیا دیکھتے ہیں نیچے
مینڈھا ذبح ہوا پڑا ہے اور اسمعیل علیہ السلام کھڑے مسکرا رہے ہیں ۔
صدا بلند ہوتی ہے ۔ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر
دکھایا ، ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیا
کرتے ہیں ۔ ( سورۃ الصافات)
No comments:
Post a Comment