Tuesday, September 27, 2016

سازشی تھیوری

سازشی تھیوری
شہیر شجاع
چند دن ہوئے  پاکستان اور بھارت کے مابین  قریب ِ جنگ کی کیفیت ہے ۔  تجزیہ نگاروں کے قلم کو  ایک بہترین  موضوع ہاتھ آگیا ہے ،بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جا رہا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ کہ پاکستانی صحافیوں  میں یکجہتی صاف نظر آتی ہے اور اس یکجہتی کا مقصد امن ہے ۔  یہ خوش آئیند بات ہے ۔ جبکہ سیاسی سطح پر نواز شریف کا کردار مبہم ہے ۔ وہ اقوام متحدہ میں  تقریبا جاندار تقریر کرنے کے بعد سے لندن میں مقیم ہیں ۔ جبکہ بھارت میں مسلسل افواج کی نقل و حرکت ، جنگ و جدل پر بحث مباحثہ ،  میدان صحافت میں جنگ پر زور ۔ یہ تمام  امور  باقاعدہ وزیر اعظم مودی  کی زیر نگرانی انجام پذیر ہیں  ۔ مودی صاحب کی مسلسل و متواتر تقاریر  جس میں انتہا کو چھوتی دھونس ، نفرت ، و منافقت کا اظہار ہوتا ہے جاری ہیں ۔  ریاست پاکستان کے تمام تجزیہ نگار ایک مثبت سوچ کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان کو سپورٹ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کا سیاسی کردار بھی بالواسطہ مضبوط ہوتا نظر آرہا ہے ۔ 
کیوں نہ ایک ایسے زاویے سے سوچا جائے جس کو ہم منفیت سے تعبیر کر سکتے ہیں ، مگر اس زاویے سے حتمی طور پر انکار نہیں کر سکتے ۔ جبکہ وزیر اعظم نواز شریف صاحب کا کردار اس وقت مبہم  ہے ، ان کی سیاست اور ان کے مقاصد بالکل بھی واضح نہیں ہیں ۔  میاں صاحب نے جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا ان کی پشت پر جنرل ضیاء الحق صاحب موجود تھے جو کہ رائٹ ونگ کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں اور اسی بینر تلے میاں صاحب نے اپنی سیاست کی بنیاد رکھی ۔ پاکستانی معاشرہ جس قدر بھی ماڈرن ہوجائے وہ اپنی اساس نہیں بھولتا ۔ یہ بھی اللہ جل شانہ کا بہت بڑا کرم ہے ۔ ورنہ  روز اول سے اس ثقافت و تہذیب کو بھسم کرڈالنے کی جستجو  موجود ہے ۔  بہرحال یہی وجہ تھی کہ انہیں پاکستان بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور انہیں مسند حکومت پر عوام نے جوش و خروش کے ساتھ بٹھایا ۔ 
آج سے دس بارہ سال پہلے تک عوام میں اس قدر سیاست سے وابستگی موجود نہیں تھی ۔ جو ہیجان اور لگاو عمران خان کی پذیرائی کے بعد وجود میں آیا ۔   اس سے یہ ہوا کہ عوام نے اپنے لیڈران کا محاسبہ کرنا شروع کردیا  ، خیر سے ایسے افراد کی تعداد کم ہوگی مگر   محض ہونا بھی  خیر ہے کیونکہ شاید ایسا رجحان پہلے نہ تھا ۔ ایسا ہی محاسبہ اگر ہم میاں صاحب کا کرنے کی کوشش کریں تو  ، ایک  بے یقینی و بد اعتمادی کی لہر ذہن کے پردوں میں دوڑ جاتی ہے ۔ ایسے لمحات میں اس لہر کو الفاظ دینا بہتر تو نہیں پر غور و فکر  والے اذہان  کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہو تو اس کے کچھ نہ کچھ فوائد ضرور میسر آسکتے ہیں ۔ سوچ کے نئے در بھی وا ہو سکتے ہیں ۔ ایسا ہونا بھی چاہیے ۔ کیونکہ آج ہمارا معاشرہ شعوری فکر سے مکمل طور پر عاری ہوچکا ہے ۔ فوری رد عمل کے عنصر نے اذہان کو اپنا کام کرنے سے معذور اور شخصیت کی تعمیر سے دور کردیا ہے ۔
ٹھیک اس وقت جب عمران خان  نے  رائیونڈ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا ۔ اس سے پہلے چند  احتساب مارچ کے نام سے ریلیاں بھی نکالی گئیں ۔ میاں صاحب پر مسلسل سیاسی دباو بڑھتا چلا گیا ۔ ان کی ساکھ بھی متاثر ہونے لگی ۔   سونے پہ سہاگہ سرحد کے دوسری جانب  مودی سرکار کا امیج بھی نہایت خراب ہوچکا تھا ۔ مسلسل تنقید کی زد میں حکومت ،اسے سہارے کی ضرورت تھی  ۔ جبکہ وہ جماعت حکمرانی کے مسند پر فائز بھی  پاکستان مخالفت ایجنڈے پر ہوئی ہو ۔  اس  دوران کشمیر کاز بھی زوروں پر ہو  ۔ کشمیری مسلمانوں کا جوش و خروش قابل دید ہو ۔ ان کو دبانے کا کوئی گر  کامیاب نہ ہورہا ہو ۔ اس موقع پر اقوام متحدہ  کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونا میاں صاحب و مودی کے لیے ایک اہم پیش رفت ثابت ہوسکتا تھا ۔   جس کے ذریعے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو مضبوط کیا جا سکے ۔ چونکہ اس اسمبلی کی کوئی اتنی خاص حیثیت ہے نہیں اس بات سے عموما عوام کو آگاہی نہیں ۔  حقیقتا  کسی بھی چھوٹے بڑے ایشو پر پیش رفت اگر ہوتی بھی ہے تو وہ  سلامتی کونسل  کی قرار داد کے بل بوتے پر ہوتی ہے ۔ اور وہ ہی ایسا ادارہ ہے جہاں آپ کی بات پُر وزن بھی ہوتی ہے ۔   جبکہ پاکستان کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے سوائے چند  ایک ممالک کے کوئی موجود بھی نہ ہو جو سختی کے ساتھ ایشوز کے حل کے لیے آگے بڑھیں ۔  یہ شور ریت کی دیوار ہی ثابت ہونے ہیں ۔  لہذا ایک مفروضہ قائم کیا جا سکتا ہے ۔ میاں صاحب کے مبہم رویے کو سامنے رکھتے ہوئے  کہ اپنی سیاست کو نیا خون مہیا کرنے  کے لیے نہایت باریک بینی سے  ایک سیناریو تخلیق کیا گیا ۔ جس کے بعد منشاء کے مطابق  نتائج بھی حاصل ہورہے ہیں ۔ چونکہ ہندمیں ہم سے کہیں زیادہ جذباتی لوگ ہیں ۔ ان کو نیند اس وقت تک نہیں آتی جب تک کوئی فلم نہ دیکھ لیں ۔ ان کی زندگی کے لیے بالی ووڈ  جزو لاینفک بن چکا ہے ۔ سو جذبات کا عقل پر حاوی ہونا غیر یقینی نہیں ۔ لہذا مودی سرکار  فوجی نقل و حرکت ، میڈیائی  ہیجان انگیز کردار و سیاسی  جذباتی بیانات کے ذریعے سے اپنی ساکھ کو ایک نئی دیوار فراہم کرنے پر کامیاب نظر آتی ہے وہیں میاں صاحب بھی اب تک لندن میں مقیم  بے فکر و مطمئن آرام فرما ہیں ۔  جبکہ دونوں ممالک میں جنگ و جدل کے موضوع پر گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں افواج  کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔ سیاسی بیانات کا بازار گرم ہے ۔ کیا میاں صاحب کا یہ اطمینان معنی خیز نہیں ؟ کیا کشمیریوں کا  خون اس قدر ارزاں ہوچکا کہ اب یہ اپنی ساکھ بحال کرنے کےلیے استعمال کیا جائے گا ؟
  اب تک میاں صاحب وطن واپس آچکے ہونگے  ۔ چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ سجائے قوم سے داد وصول کرہے ہونگے ۔ ایسے موقع پر روائیونڈ مارچ کی حیثیت دو ٹکے کی نہیں رہ جائیگی ۔ پانامہ لیکس ، کرپشن  ہم دل سے قبول کر چکے ہیں ۔ ہم کرپشن کے سہارے ہی جینا پسند کرتے ہیں ۔ ہم قطار میں کھڑے ہونا پسند نہیں کرتے ۔ ہم مٹھی گرم کر کے  جلدی فارغ ہونا ۔ تھری پیس پہن کر اپنا تعارف کروا کر یس سر سننا پسند کرتے ہیں ۔  اور لمبی قطار میں کھڑے  بھوکی ننگی غربت زدہ عوام پر رعونت سے نظر ڈالتے ہوئے اپنا کام کروا کر  گاڑی اسٹارٹ کرتے ہیں اور زن کر کے نکل جاتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...