ویلنٹائن
شہیر شجاع
پاکستانی
معاشرہ ذرا جدا ہے ۔۔۔ یہاں جو ہوتا ہے سینہ ٹھوک کر ہوتا ہے ۔۔ خواہ اچھا ہو یا برا
۔۔۔ خنجر کی ہو یا جوتے کی نوک پر ہوتا ہے ۔۔۔ بات نہ بنے تو ٹی ٹی کلاشنکوف نکل آتے
ہیں ۔۔۔ یہاں ہر کوئی آزاد ہے ۔۔۔۔۔ ویلنٹائن
ویلنٹائن کا شور ہے ۔۔۔۔ کسی کے لیے یہ " یوم محبت " ہے ۔۔ تو کسی کے لیے
" یوم تجدید حیا " ۔۔۔۔ ہر دو گام پر سینے چوڑے ہیں ۔۔۔ گردنیں تنی ہوئی
ہیں ۔۔۔ ہر ایک کے پاس دلائل ہیں ۔۔۔ بس کیا کیجیے کہ ۔۔۔ خنجر بھی ہر ہاتھ میں موجود ہے ۔۔ سینے بھی ان کے
سامنے سپر ہیں ۔۔۔۔
لفظ
" محبت " فطری طور پر محبوب ہے ۔۔۔ اسی طرح لفظ " آزاد" ۔۔۔ یہ
الفاظ انسان کو مسحور کردیتے ہیں ۔۔ وہ انہیں اپنی زندگیوں میں شامل کرلینے پر مجبور کرتے ہیں ۔۔۔۔
ٹھیک
ہے جنہیں عالمی یوم محبت میں شانہ بشانہ حصہ لینا ہے ۔۔ وہ لیں ۔۔ بصد شوق لیں ۔۔۔
مگر جو اس عالمی یوم محبت کے فلسفے کو رد کرتے ہوں ۔۔ وہ بھی ان کے درمیان نہ آئیں
۔۔۔ انہیں منانے دیں ۔۔ کیونکہ ابھی ہمارا معاشرہ اس قدر زوال پذیر نہیں ہوا کہ ایسے
دن کا سہارا لیے بنا ۔۔۔ جبلی خواہشات کی تکمیل کی جا سکے سو ایسے عالمی دن کی ضرورت
موجود ہے ۔۔۔۔۔ سو وہ اپنے جہاں میں خوش آپ اپنے جہاں میں خوش رہیں ۔۔ آپ کا جہاں اس
وقت دنیا میں یوں مشہور ہے کہ آپ نفرتوں کے
سوداگر ہیں ۔۔ سو مزید اپنی بدنامی کا باعث نہ بنیں ۔۔ ۔ بلکہ آپ کے نام سے جڑے ان
غلط تصورات کو دور کرنے کی جانب توجہ دیں ۔۔۔۔
جب
انسان میں غلبہ غلامی اپنی جگہ بنا لیتا ہے ۔۔ پھر اس کا شعور اپنے آپ سے جدا ہوجاتا
ہے ۔۔۔ بنیادوں سے جڑے رہنے والی خواہش ۔۔ قدامت پسند ، رجعت پسند ، بنیاد پرست جیسے تصورات کہلاتی ہے ۔۔۔ آزاد خیال سب ہی ہوتے
ہیں ۔۔۔۔ دنیا بدل گئی ہے ۔۔۔ مگر ہماری نظریاتی بحثوں میں اب تک جدت آئی ہے اور نہ
ہی خاطر خواہ اعتدال ۔۔۔۔ ہر جانب اپنے نظریات پر شدت پسندی کا غلبہ ہے ۔۔۔ کوئی اپنا
محاسبہ کرنے پر رضامند نہیں ۔۔۔
سو
ویلنٹائن والوں کو " عالمی یوم محبت " مبارک ۔۔۔۔
تم
شوق سے کالج میں پڑھو, پارک میں کھیلو..
جائز
ہے غباروں میں اڑو, چرخ پہ جھولو...
پر
ایک سخن بندہ عاجز کی رہے یاد ..
اللہ
کو اور اپنی حقیقت کو نا بھولو
اکبر
الہ آبادی
No comments:
Post a Comment