قصور کس کا ؟ سیاست یا معاشرت
شہیر شجاع
جب ہم اللہ جل شانہ کے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں تو پھر
ہماری زندگی سے برکت و رحمت اٹھ جاتی ہے ۔ ہمارے کام سیدھے نہیں ہوتے ۔ سب کہتے ہیں
خود ٹھیک ہوجاو معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا ۔ میں اس بات کو نہیں مانتا ۔۔ معاشرے میں امور
سیاست ناگزیر ہے ۔ اور سیاست کا سب سے اہم مقصد معاشرے کو پر امن اور باہم مربوط رکھنا
ہوتا ہے جس کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے
۔چونکہ یہ معاشرہ طاقت ور کا معاشرہ بن چکا ہے ۔ کمزور کے لیے کوئی پرسان حال نہیں
ہے وہا ں ذہنی پراگندگی اپنا اثر دکھاتی ہے ۔ پیٹ کے مسائل کاشکار ذہن کہیں نہ کہیں
اپنی فرسٹریشن نکالتا ہے ۔ آپ اگرامور سیاست کو اس سے ماوراء سمجھتے ہیں تو یورپ کے
قوانین میں ایک بچے کو کیوں اختیار ہے کہ اگر اس کے والدین تشدد کریں تو وہ شکایت درج
کرائے؟ اور اس کا ازالہ بھی کیا جاتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا وہ قانون درست ہے ۔ مگر
ہمارا اپنا دین اتنا خوبصورت اور معتدل ہے کہ اسے اگر رائج کیا جائے اور قانون نافذ
کرنے والے اداروں کو فعال کیا جائے تو ایسے معاشرتی مسائل سے بہت حد تک چھٹکارا مل
سکتا ہے ۔ یورپ کی عورت ہم سے کہیں زیادہ پسماندہ تھی ۔ وہاں مگر اسے حقوق دینے کے
چکر میں حدود ہی کراس کردی گئیں جس وجہ سے وہ آزاد تو ہوگئی مگر خاندانی زندگی سے محروم
ہوگئی ۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے ۔۔ یہاں رائج صدیوں پرانے رواج ۔۔۔ ناخواندگی ۔۔ او
ر جو خواندہ عناصر ہیں وہ بھی تعلیم کے ایسے فرسودہ معیار کی وجہ سے محض ایک دوڑ کا
حصہ ہیں ۔۔ تربیت کہاں ہے ؟ جس معاشرے کی تعلیم ، تربیت نہ کرسکے اس تعلیم کا کیا فائدہ
؟ پھر آپ مردوں پر الزام لگائیں یا عورت کو قصور وار کہیں ۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا
۔۔ عدالتوں میں وکلاء اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔۔ مگر اسی قانون کے داو پیچ کے ذریعے
مجرموں کو بے قصور ثابت کرتے ہیں ۔۔۔ جبکہ ان کے پاس قانون کا حقیقی علم ہوتا ہے ۔
معاشرہ تو اپنے دین سے ہی نابلد ہے ۔۔ رائج فرسودہ روایات کو ہی دین سمجھ کر اسے مذہب
کا نام دے لے اور کسی جاہل پر رعب جمائے تو کس کا قصور ہے ؟
میرا ماننا یہی ہے کہ جب تک ہم "علم" کو اور اس کی
"حقیقت" کو نہیں سمجھتے ۔۔ اور اسے عام کرنے کی جانب توجہ نہیں دیتے ۔ یہ
معاشرہ یونہی چلتا رہے گا ۔ میں نے سندھ کے
دیہات دیکھے ہیں ۔۔ جہاں وڈیرا "خدا" بنا بیٹھا ہے ۔ کون قصور وار ہے ؟ کبھی
"چوہدری" "خانصاحب" اور "سردار" خدا بنے بیٹھے تھے
۔۔ آج شاید چوہدری و خانصاحب سے معاشرہ جان چھڑا چکا ۔۔ مگر سردار و وڈیرے اب بھی موجود
ہیں ۔۔۔ دیہی زندگی انہی کی مرہون منت ہے ۔ وہاں معاشرہ کیا پنپے گا ؟ جہاں سے جو نوجوان
کسی طرح تعلیم حاصل کرنے شہروں میں آجاتے ہیں پھر وہ واپسی کا رستہ بھول جاتے ہیں
۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی بھی ایسا طاقت کا ذریعہ نہیں ہے جس کے ذریعے وہ اپنے سماج
کو ان "خداوں " سے نجات دلا سکے ۔
پھر بھی قصور معاشرے کا ہے ؟
شہروں میں پھر بھی بہت حد تک فرسودہ روایتیں کم ہوگئی ہیں ۔
مگر وہ "خداوں" کی چھت تلے زندگی
کے اثرات اب بھی موجود ہیں ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کیا ہورہا ہے وہ کہہ دینا ۔ مسئلہ یہ
ہے کہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کا حل کیا ہے جاننا اہم ہے ۔
اس کا حل میرے نزدیک ۔۔۔ ایک تو امور سیاست ہے ۔۔ دوسرا عوام
کا "علم " و حکمت" یعنی دین کی جانب رجوع ہے ۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں
"علم و حکمت " کی جانب رجحان کے لیے حالات سازگار نہیں ۔ عام آدمی نیند سے
اٹھ کر دوبارہ نیند کی آغوش میں جانے تک "روٹی" کی سوچ سے باہر نہیں نکل
سکتا ۔ تو وہ اپنی زندگی کے اہم مقاصد و منازل کی جانب کیاتوجہ کرے گا ۔ جبکہ اس کے
آس پاس ۔۔ دین کا آئینہ یوں پیش کیا گیا ہے کہ اسے مسجد و منبر سے ہی نفرت ہوگئی
ہے ۔
زندگی آزمائش ہے ۔۔ اور دنیا آزمائش گاہ ۔۔۔ یہ آخرت کی کھیتی
ہے ۔ آخرت کی کھیتی جی ہاں ۔ یہ غور طلب بات ہے ۔۔ کھیت میں سنڈیاں حملہ کردیں تو اس پر چیخ و پکار نہیں اس کا حل تلاش کرنا ضروری
ہوتا ہے ورنہ ۔۔۔
دین اسلام یا تو بہت آسان ہے ۔۔۔ یا انتہائی مشکل ۔۔ کیونکہ
یہ غور و فکر ۔۔ اور معرفت الہی کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے ۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment