مدغم
ہوتی تہذیب
شہیر
شجاع
کچھ
آفاقی الفاظ (جذبات)سماجی روایتوں کی اخلاقی حدود کو توڑنے میں کافی کارآمد ثابت
ہورہے ہیں ۔ لفظ محبت و آزاد ، ان لفظوں نے ایسے فلسفوں کو بڑی تقویت پہنچائی ہے،
جو فرد کی آزادی میں گھٹن کا سبب ہوں ۔ مگر اس کاشانہ چمن میں فلسفے کا جواب فلسفے سے ،
حدود و قیود کا جواب حدود و قیود سے دینے کے علمی مظاہر نابود ہیں ۔
اخلاقی تقاضے اور جبلی خواہشات میں فرق ہے ۔ ایک ایسی جبلی خواہش ، نامحرموں کا آپس میں " آزادانہ میل ملاپ "ہے ،جسے شہوات کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے ۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے اجتماعی اخلاق آڑے آتا ہے ، سو اس اخلاقی رویے کی ماہیت کو بدلنے کے لیے " لفظ " محبت " کارآمد ہےکہ محبت تو آفاقی جذبہ ہے ۔ سو یہ فسلفہ وجود میں آتا ہے کہ محبت سے کیوں روکتے ہو ؟ کسی طرح یہ اخلاقی رکاوٹ دور ہوجائے ۔جیسے مغرب کی مثال ۔۔۔۔ ۔۔۔
اخلاقی تقاضے اور جبلی خواہشات میں فرق ہے ۔ ایک ایسی جبلی خواہش ، نامحرموں کا آپس میں " آزادانہ میل ملاپ "ہے ،جسے شہوات کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے ۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے اجتماعی اخلاق آڑے آتا ہے ، سو اس اخلاقی رویے کی ماہیت کو بدلنے کے لیے " لفظ " محبت " کارآمد ہےکہ محبت تو آفاقی جذبہ ہے ۔ سو یہ فسلفہ وجود میں آتا ہے کہ محبت سے کیوں روکتے ہو ؟ کسی طرح یہ اخلاقی رکاوٹ دور ہوجائے ۔جیسے مغرب کی مثال ۔۔۔۔ ۔۔۔
کل
کو شراب نوشی کو بھی فرد کی آزادی سے منسلک کیا جا سکتا ہے ۔ مغرب میں جوئے کے اڈے
مکمل ریاست کی سرپرستی میں قائم ہیں ۔ سماجی روایتوں میں اجتماعی اخلاق اہمیت رکھتے ہیں ۔ اور ہمارا اجتماعی اخلاق پابند ہے ۔
اسی وجہ سے بہت ساری ایسی روایات جو کسی سماج میں بری تصور نہیں کی جاتی، مگر
ہمارا سماج ان روایتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے اس سماج کے ناپسندیدہ افعال چھپ چھپا کر کیےجاتے
ہیں ۔ جس سے کم از کم یہ امر واضح رہتا ہے کہ فلاں اوامر ہمارے اجتماعی اخلاق سے
مناسبت نہیں رکھتے۔ ہر چند یہ کہ حدود پر جب ضرب پڑتی ہے تو سماج بلبلا اٹھتا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ روایتوں کے امیں و باغی دونوں علمی سطح پر صحت مند کلام کرنے اور
کسی نتیجے تک پہنچنے کےبھی متحمل نہیں ہیں۔ کیونکہ مسئلہ روایتوں کا نہیں نفرتوں
کا ہے ۔ دو مختلف نظریات کا تنافر ۔
یہاں ناکامی کس کی ہے ؟
اس ناکامی کا ہر " متعلق
" طبقہ ذمہ دار ہے ۔ سماجی ادرے ،
صحافت ، ادب ، تعلیمی ادارے ، غرض ایک بہت
بڑی ذمہ داری سیاسی اداروں کی بھی ہے ۔
سیاسی اداروں کی اولین ترجیح سماج کو منظم رکھنا ۔ ان کے اخلاقی حدود و قیود کا
تعین کر کے ان کا پابند کرنا ، ایک مکمل نُظم قائم کرنا ۔ یہ سیاسی اداروں کی ذمہ
داری ہے ۔ یہاں ہر وہ طبقہ جو اپنی ذمہ داریوں کے عوض " عوضانہ " کماتا
ہے ۔ اس کا تعلق سماج سے جیسے مکمل کٹا ہوا ہے ۔ مسلسل سماجی اکائیوں کو ہی یہ
طعنہ دینا کہ "تم ہی غلط ہو ۔ اپنے آپ کو سدھار لو ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا "۔
اس کے لیے ایک نُظم درکار ہوتا ہے ۔ اور وہ نظم سیاسی ادارے فراہم کرتے ہیں ۔ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو بعید نہیں ، آنے
والی ایک نسل ایسی بھی ہوگی جہاں مذہبی رجحان فردکی توہین سمجھی جائے گی ۔ اخلاقی
حدود کا تعین سڑکوں پر فرد کر رہا ہوگا ۔ اجتماعیت میں تہذیب اپنے آپ مر جائے گی ۔ یا یوں کہہ لیں
ایک ایسی تہذیب میں مدغم ہوجائے گی جس کا عام مشاہدہ ہم مغرب میں کر سکتے ہیں ۔ نہ
جانے یہ امتزاج معاشرہ سہہ پائے گا کہ نہیں ؟
No comments:
Post a Comment