پسند کی شادی اور لبرل ذہن
شہیر شجاع
پسند
کی شادی پر دو پیپلز پارٹی کے وزرا آپس میں مرنے مارنے پر تیار کھڑے ہیں ۔ دونوں مختلف
قبائل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی جماعت پیپلز پارٹی ہے ۔ اور پیپلز پارٹی لبرل
نظریے کی علمبردار بھی ہے ۔ جیسے ہی معاملہ اپنی ذات تک آیا سارا لبرل ازم رفو چکر
ہوگیا ۔ دونوں قبائل جن کے دو افراد اسمبلی کے ممبر ہیں ۔ جو پچھلے دنوں قبول اسلام
جیسے مسئلے پر قانون سازی کر رہے تھے ۔ ان
کی پسلی سماجی روایت کے سامنے ٹوٹ
گئی ۔ اور اسلام پسندوں کو رجعت پسندی کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے ۔ یہ ایک ایسا عبرت ناک واقعہ ہے ان کے لیے جو سماجی روایتوں ، اور معاشرتی طور اطوار کو مذہب
سے جوڑ کر مذہب کو تختہ مشق بنائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ مذہبی نقطہ نظر جو بھی ہے سو ہے ۔ اس تک تو معاشرہ
آج تک پہنچ ہی نہیں پایا ۔ کیونکہ اس سے پہلے
اسے سماجی روایتوں کو بھی الانگنا ہوتا ہے جس کی جرات کرنا عموما ناممکن ہوتا ہے ۔
مذہب سے لاتعلقی کے بہت سارے نقصانات کا اس
سماج کو سامنا ہے اس کے باوجود ہر لبرل ذہن، ہر مشکل کا تانہ بانہ مذہب سے جوڑنے کا
قائل رہتا ہے ۔ کیونکہ سیکولر معاشرے کی مادر پدر آزادی عام ذہن کو زیادہ متاثر کرتی
ہے ۔ سو وہ اس مملکت خداد کے اسلامی مملکت ہونے کو ان تمام الجھنوں کا باعث گردانتا
ہے ۔ اور ہر برائی کی جڑ لفظ " مذہب " سے جوڑنے پر ذرا تامل نہیں کرتا ۔
بہتر ہوتا کہ اس متذبذب پراگندہ شعوری دور میں ہم اپنی جڑ ، اپنی بنیاد یعنی مذہب جو
ہمارا نصب العین اور ہماری زندگی کا منشور
بھی ہے اس جانب لوٹتے مگر جو لوٹنا بھی چاہتا ہو اسے بھی متنفر کرنے پر مصر ہیں ۔ لبرل
کا لفظ ہی اعتدال پسندی کا اظہار ہے مگر اس کے پس منظر میں چھپی منافقت جلد سمجھ نہیں
آتی یہاں تک کہ ذہن پر ایک دبیز تہہ چڑ چکی ہوتی ہے ۔ آنکھوں میں ایک خاص عینک براجمان
ہوچکی ہوتی ہے ۔
No comments:
Post a Comment