ایم کیو ایم اور آج کا سیاسی منظر نامہ
شہیر شجاع
ایک
نوجوان تعلیم یافتہ لڑکا کراچی کی لسانی جماعت کے جھانسے میں آگیا تھا ۔ جو اپنی تعلیمی
سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ گلی محلے کے افراد کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا ۔ جس کے لیے اسے
وہ جماعت موزوں نظر آئی ۔ جس کا نعرہ اس کے دل کو چھو گیا ۔ اور وہ اپنی شمولیت کے
ساتھ اپنے تئیں ان افراد کی فلاح کے کاموں میں جت گیا جو استحصال کا شکار تھے ۔ دن
میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہتا شام میں پارٹی کے ساتھ مل کر عملی کام کرتا
۔ جلد ہی وہ یونٹ انچارج کی سطح تک پہنچ گیا ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ۔ اسنے دیکھا
کیسے کیسے مال بنایا جاتا ہے ؟ کیسے نوجوانوں کو تباہ کرنے کے پلان تشکیل دیے جاتے
ہیں؟ وہ تو ایک مثبت مقصد لیے اس جماعت میں
شامل ہوا تھا ۔ آہستہ آہستہ پارٹی کے منفی
عناصر کے ساتھ اس کی چپقلش رہنے لگی ۔ اس کی پہنچ اب تک اعلی سطح کے کارکنان سے نہ
ہو پائی تھی ۔ جبکہ اس کے ساتھ چند ایسے افراد بھی تھے جو دہشت گردی میں ملوث تھے
۔ جن کو احکام "اوپر" سے ڈائریکٹ ملا کرتے تھے ۔ ایسے افراد اس کے خلاف ہوگئے
۔ اکثر مقامات پر جہاں وہ منفی سرگرمیوں کی مخالفت کرتا وہاں خمیازہ بھی اسی کو بھگتنا
پڑتا ۔ کسی موقع پر اس کی نوک جھونک ایک دہشت گرد لڑکے سے ہوگئی ۔ اس نے اونچی سطح
پر اس کے خلاف جھوٹی رپورٹ کردی کہ فلاں لڑکا
پارٹی کے خلاف جا رہا ہے ۔ اس سے پارٹی کو خطرہ ہے ۔ وہ بھائی کو اچھی نظر سے
نہیں دیکھتا ۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اس کے خلاف احکامات "نازل " ہوگئے
۔ دن دیہاڑے وہ غائب ہوا اور رات کے کسی پہر
اس کی لاش برآمد ہوئی ۔ جس پر چٹ لگی تھی ۔ " جو قائد کا غدار ہے ، وہ موت کا
حقدار ہے " ۔ اور ایک مخلص نوجوان "قائد سے غداری کی بھینٹ " چڑھ گیا
۔
اس
جماعت کو اور فی زمانہ اس کے ووٹرز کو سمجھنا آسان نہیں ہے ۔ یہ ایک نوجوان کی نہیں
پوری نسل کی کہانی ہے ۔ جو تباہ و برباد ہوئی
۔ آج جو حال اس جماعت کا ہے وہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ لوہا گرم ہے کراچی کو منظم
کیا جا سکتا ہے ۔ کراچی کو اس کے اصل جوہر میں واپس لایا جا سکتا ہے ۔ مگر جس سیاسی
رویے کے ذریعے کوشش نظر آرہی ہے وہ ایک ڈرامہ ہے ۔ کوئی چاہتا ہی نہیں ہے کراچی اپنے
جوہر میں واپس آئے ۔ یہ ایک سونے کی چڑیا ہے جسے دو بڑی جماعتیں استعمال کرتی آئی ہیں
اور کر رہی ہیں ۔ وہی انہیں پالتی پوستی ہیں ۔ جب فصل کی کٹائی کا وقت آتا ہے تو کونپلیں
کاٹ کر دعوائے پارسائی کرتی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان مضبوط جڑوں سے پھر کونپلیں پھوٹ نکلتی
ہیں ۔ پھر دعووں اور نعروں کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ اور یہ سلسلہ تیس پینتیس سال سے
چل رہا ہے ۔
No comments:
Post a Comment