شکوہ کناں پردیسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے پردیسی دوست شکوہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی کمائی پہ دیس میں ان کے والدین اور ان کے بھائی بہن عیاشیاں کر رہے ہیں اور ان کی اہمیت محض پیسہ کمانے کی مشین جیسی رہ گئی ہے یا اس قسم کے دوسرے شکوے ۔
شاید ایسا ہوتا بھی ہو پر ایسی مثالیں حقیقتا بہت کم ہی ہوتی ہیں ۔ اگر ہوتی بھی ہیں تو میرا ماننا ہے کہ یہ شکوہ ان کا قطعا بجا نہیں ہے ۔ کیونکہ پردیس جانا عموما پاکستان کے اکثر نوجوانوں کا خواب ہوتا ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ باہر جائیں گے تو زیادہ پیسے کمائیں گے ۔ ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی ہوگی ۔ ترقی یافتہ ممالک کی چکا چوند سے لطف اٹھائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ اور باہر جاکر حقیقتا وہ ان آسائشوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اور ان آسائشات کو ترک کرنا ان کے بس میں نہیں رہتا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آسائشات انہیں وطن واپسی سے روکے رکھتی ہیں ۔ اور وہ اپنی زندگی باہر ہی بسر کرنا بہتر سمجھتے ہیں ۔
ہمارے پسماندہ معاشرے میں عموما باہر جانے والے دو قسم کے افراد ہوتے ہیں ۔ ایک اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی نیت سے کوچ کرتے ہیں جبکہ دوسرے اپنے خاندان کو سپورٹ کرنے کے “ بہانے “ سفر کرتے ہیں ۔ سو دوسری قسم کے افراد ہی زیادہ تر اپنے خاندان سے شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ اور “ خود ترسی “ جو ہماری قومی نفسیات بن چکی ہے ، سے مجبور اپنے دوست احباب میں اپنے گھر والوں کو اپنی جان کا دشمن بتاتے لطف محسوس کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ خود ان سے بدرجہا بہتر زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ۔ ریالات ، ڈالر ، یورو و دینار میں سے کتنا حصہ وہ گھر والوں پہ خرچ کرتے ہونگے ؟ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے باہر آنے کا سبب ہی یہی تھا کہ ان کے خاندان والے زندگی کی آسائشات سے مستفید ہوسکیں اور جب ان کی قربانی سے وہ مستفید ہونے لگیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہاں فضول خرچیاں شروع ہوگئی ہیں ۔ ان کا خیال نہیں رکھتا کوئی ، بلکہ انہیں پیسوں کی مشین سمجھتا ہے ۔ بالآخر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے بعد ایسے افراد اپنی زندگی الگ تھلگ کرلیتے ہیں ۔ اور ان کے والدین آخری سانسیں اپنے عزیز بیٹوں کو دیکھنے ، سننے کو ترستے گزاردیتے ہیں ۔ یہاں تک کے ان کے جنازوں کو کندھا دینا بھی اکثر پردیسی بیٹوں کو نصیب نہیں ہوتا ۔
یہ عجیب خود ترسی کی نفسیات ہے ۔ یہاں ہر شخص کی انجانی خواہش جیسے دوسروں کی ہمدردی بٹورنا رہ گئی ہو ۔ وہ بلند اخلاق ، وہ بلند حوصلے ، وہ قربانی کا مزاج مفقود ہو کر رہ گیا ہے ۔ ایسے میں مقاصد زندگی کو طے کرنا ، سوچ و فکر کا تخلیقی و تعمیری ہونا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟ ہمیں اس نفسیات سے باہر نکلنا ہوگا ۔
خود ترسی پس ماندگی کی علامت ہے جبکہ عاجزی میں لیاقت چھپی ہے ۔ اور عاجزی علم کی گہرائیوں اور عمل کی مشقتوں میں پنہاں ہوتی ہے۔
شکوہ کناں رہنے میں اطمینان نہیں بلکہ شکر گزاری میں سکون ہے ۔
میں پردیسی شکوہ کناں دوستوں سے اتنا ہی کہوں گا کہ اپنوں پہ اعتماد کرنا سیکھیں اور محض پیسہ کمانے کی وجہ سے اپنے ماں باپ کے خود باپ نہ بن جائیں ۔ آپ کیا جانیں آپ کی ماں راتوں کو اٹھ اٹھ کر ، دن میں چلتے پھرتے آپ کے لیے دعا گو رہتی ہے اور آپ کا باپ اپنے گھر کے سکون کو دیکھ کر آپ کے لیے دعائیں کرتا رہتا ہے ۔ تب جا کر آپ میں اتنی استطاعت پیدا ہوتی ہے کہ آپ بہت سی مشقتوں کو برداشت کرسکیں اور ان سے کہیں بڑھ کر آسائشوں سے مستفید ہوسکیں اور اللہ جل شانہ آپ کے رزق میں برکت ڈال دے جس سے پیچھے والوں کے لیے بھی آپ ذریعہ بنے رہیں ۔ ورنہ آپ میں اتنی استطاعت ، اہلیت و اعلی قابلیت ہوتی تو کبھی اپنا وطن نہ ترک کرتے ۔ بلکہ بدتر حالات کا مقابلہ کرتے اور اپنا رستہ بناتے ۔
شہیر شجاع
No comments:
Post a Comment