اوگیر گیز یلن وےبوزبک ۔۔۔۔۔ موازنہ سلطنت عثمانیہ اور یورپ
اوگیر گیز یلن وے بوزبک جو ترک یعنی عثمانی سلطنت
دربار میں آسٹریا کا آخری سفیر تھا ۔۔۔۔ وہ ترکوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کہتا ہے ۔ ایک مرتبہ مجھے عید
بیرام کی ضیافت دیکھنے کا موقع ملا ، صبح
تڑکے میں ایک خیمے میں پہنچ گیا جو کہ پہاری کی بلندی پر واقع تھا ۔ وہاں سے سلطان کا شامیانہ صآف نظر آتا تھا ۔
میں کیا دیکھتا ہوں وہا ں ایک بہت بڑا
مجمع ہے سارے لوگ عمامے باندھے تھے اور ایک امام کی قیادت میں نماز ادا کر رہے تھے
۔ جماعت میں صفوں میں بڑا نظم و ضبط تھا ۔ اور وہ مقام جہاں سلطان کھڑا تھا ، اسے نزدیک اور دور صفیں صاف صاف نظر آرہی
تھیں ۔
یہ بڑا دلکش منظر تھا۔ برف کی طرح سفید عمامے اور
فوجیوں کی زرق برق وردیاں ، کہیں کھانسی تک کی آواز نہ سنائی دیتی ۔ کسی کی گردن
تک اور سمت جنبش نہیں کرتی ۔
نماز کے بعد صفیں منتشر ہوگئیں ۔ اور پورا میدان رواں دواں مجمع سے بھر گیا ۔ سلطان کے
ملازمین ناشتے کا خوان لے کر حاضر ہوئے اور دیکھئے ۔ ادھر ینی چیری زندہ دلی سے کھانے کے طباقوں پر ٹوٹ پڑے ۔ یہ پرانی رسم ہے
، عید کے دن ہر ایک کو بری آزاد ی حاصل ہوتی ہے ۔
پھر میں نے ہمت کر کے بھیس بدلا ، تاکہ اچھی طرح گھوم پھر کر اس خیمہ گاہ
کو دیکھ سکے ۔
" میں نے دیسی
عیسائیوں کا لباس پہنا اور ایک دو ساتھیوں
کے ساتھ باہر نکل کھڑا ہوا ۔ پہلی چیز جسے
میں نے خاص طور پر محسوس کیا کہ ہر رسالہ اپنے خاص حصے میں رہتا تھا ور سپاہیوں کو اس حصے سے باہر
نکلنے کی اجازت نہیں تھی ، ہر جگہ نظم و ضبط تھا ، خاموشی چھائی رہتی تھی ، کہیں
لڑائی جھگرے یا زبردستی کی چھین جھپٹ نہ تھی ۔ ہر جگہ صفائی تھی ۔ کہیں گندگی نہ
تھی ۔ بول و براز کے لیے گڑھے کھودے جاتے تھے اور پھر انہیں تازہ مٹی سے پاٹ دیا
جاتا تھا ۔
" پھر یہ کہ میں نے
کہیں شراب نوشی اور قمار بازی نہیں دیکھی ۔ یہ دونوں ہمارے یورپ کے سپاہیوں کی لعنتیں ہیں ، ترکوں کو تاش
کے کھیل میں پیسے کھونے کا ہنر نہیں آتا ۔
میرے من میں یہ بھی سمایا کہ میں جھاڑیوں کی بھی سیر
کر آوں ، جہاں قصائی بھیڑیں ذبح کرتے ہیں ۔ چار یا پانچ ہزار ینہ چیریوں کے لیے کل
چار یا پانچ بھیریں زبح کی گئیں تھیں ۔ میں نے ایک ینی چیری کو دیکھا ، جو ایک
چوبی مشقاب میں کھانا کھا رہا تھا ، جس میں شلجم ، پیاز ، لہسن اور ککڑی کا ایک
مرکب سالن تھا جس میں ذئقے کے لیے نمک اور سرکہ ڈالا گیا تھا۔ یہ سپاہی ترکاریاں
اتنے مزے لے لے کر کھا رہے تھے گویا وہ تیتر کھا رہے ہوں ۔ یہ لوگ پانی کے سوا اور
کچھ نہ پیتے تھے ۔
"
میں نے افطار سے ذرا قبل ان سپاہیوں کے خیمے میں ان کا طرز عمل دیکھا ، تو اور بھی
متحیر ہوا ۔ عیسائی سر زمینوں میں روزوں کے زمانے میں باقاعدہ شہروں میں بڑا
ہنگامہ ، لہو لعب ، شراب نوشی اور بے اعتدالی ہوتی ہے ۔ لیکن ترک رمضان کے مہینے سے پہلے کھانے پینے میں کوئی خاص افراط نہیں برتتے ۔ بلکہ رمضان سے
پہلے وہ اپنی غذا ذرا کم کر دیتے ہیں ،
تاکہ روز ہ رکھنے کی عادت پڑ جائے ۔
" یہ سب فوجی نظم و ضبط اور اس سخت قانون کا کرشمہ ہے جو
انہیں اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملا ہے ۔ ترک کوئی جرم معاف نہیں کرتے ۔ جو سزائیں
ان کے یہاں مقرر ہیں یہ ہیں ۔ تنزل ، برطرفی ، جائیداد ، تازیاز اور سزائے موت ،
ینی چیریوں پر بھی سزائے تازیانہ عام لوگوں کی طرح عائد ہ۔ اگر جرم سنگین نہ ہوتا
تو تازیانے کی حد عائد ہوتی۔ اگر جرم سنگین ہو تو انہیں خدمت سے موقوف کردیا جاتا
ہے یا ان کا تبادلہ کسی اور رسالے میں کردیا جاتا ہے اور وہ ان سزاوں کو سزائے موت
سے بدتر سمجھتے ہیں
مجھے حیرت ہوتی تھی کہ کس تحمل سے یہ لوگ سزا یا
تکلیف برداشت کرتے تھے ۔ اسے یہ معلوم ہوگیا کہ ینی چیری اس پر آمادہ ہوجاتے تھے
کہ تازیانہ کی مار سے بے ہوش ہوجائیں ، تاکہ وہ اپنے ساتھیوں سے ہٹا کے کہیں
تبادلہ کر کے نہ بھیج دیے جائیں ، اتفاق سے ترکوں کی ایک بڑی بنیادی کمزوری یہ تھی کہ تجربہ کار ینی چیریوں کو اپنے ملبوس
کو زرق برق بنانے اور سج دھج کا بڑا شوق تھا
ینی چیریوں کے آغا اپنی سال بھر کی آمدنی چاندی کے
کام کی زین خریدنے میں صرف کر دیتے تھے ، سنجق بے زر تار خلعت خریدنے میں مقروض
ہوجاتے تھے ۔ رکن الدولہ ابراہین خود سلطان نے اس ذاتی کروفر اور نمود کی نظیر
قائم کی تھی ۔
No comments:
Post a Comment