کراچی کے راہزنوں سے خطاب؎
شہیر
صبح دن چڑھے
جب آنکھ کھلتی ہے تو تمہارے ذہنوں میں یہ خیال نہیں آتا ہوگا کہ میں آج روزی روٹی کی تلاش میں کونسا روزگار
تلاش کروں کہ میرا آج اور میرے آنے والے کل کے لیے راہ ہموار ہوجائے ۔ کس رستے جاوں کے میرے پچھلے گناہ معاف
ہوجائیں اور رب تعالی کے حضور شرمندہ ہونے
سے محفوظ ہوجاوں ۔ میرا معاشرہ مجھ پر
فخر کرے اور میری وجہ سے اس معاشرے میں
انقلاب آجائے ۔ مجھ میں اتنی قوت ہے کہ میں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں سڑک کے
بیچوں بیچ راہ چلتے عام سے آدمی کے کپڑے تک اتروا سکتا ہوں تو اس
قوت کو میں اپنی طاقت بنا لوں اور اپنے
جیسے نوجوانوں اور ان نوجوانوں کے لیے بھی جو میرے ہاتھوں اپنا دھن لٹوا ڈالتے ہیں
جو مجھ سے کمزور ہیں اور بیشک بڑی تعداد
مجھ سے بھی زیادہ طاقتور ہوگی جن کے ملاپ سے
اپنے راستے خود متعین کروں ،
روزگار خود چل کر میرے راستے میں بچھ جائیں ۔ اور میں تمام بے کس و ناداروں میں اسے تقسیم کروں ، دہشت کی علامت
ہونے کے بجائے ان کا مسیحا ہو جاوں۔
گر واقعی ایسی سوچ نہیں در آتی
تو
ان چوروں
لٹیروں ڈاکووں کو کیوں نہیں لوٹتے جنہوں نے تمہیں اس درجے تک پہنچنے پر مجبور کیا ۔
No comments:
Post a Comment