ایک کریم بھائی اور ایک کریم پیغمبر کے سامنے کھڑا
ہوا ہوں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ فرمایا اور اسے قریش مکہ کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کے لیے
مخفی رکھا گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خانہ کعبہ سے محبت تو دیدنی تھی
ہی اور کیوں نہ ہو وہ اللہ جل شانہ کے محبوب اور رحمت اللعالمین تھے ۔ صلی اللہ
علیہ وسلم ۔۔ ہجرت سے پہلے آپ دو رکعت نفل پڑھنے کی غرض سے خانہ کعبہ تسریف
لے گئے اور اس وقت کے متولی شیبہ سے کعبے کے اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی ، شیبی
نے طاقت کے نشے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گستاخانہ لہجے میں منع کر دیا ۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے بڑی لجاجت سے التجا کی ۔
ہائے ہائے ۔۔ خاتم الانبیاء والمرسلین ، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ایک کافر کے سامنے گڑگڑا رہے ہیں ۔۔ اور وہ
گستاخ توہین پہ توہین کیے جا رہا ہے ۔ نبی
کریم صلی اللہ ولیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ جہاں تو کھڑا ہے وہاں پر
میں کھڑا ہونگا اور میرے مقام پر تو ہوگا ، اس وقت تو کیا کرے گا ؟
مادیت پرست شیبی کیا جانتا تھا
نبیوں کے اطوار ، اس نے بری طرح سے منع کر
دیا ۔
پھر وہ دن آیا
جب مکہ معظمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتح بادشاہ کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے ۔ بادشاہوں کا طریقہ ہے کہ وہ
جب مفتوحہ علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو املاک
تہہ و بالا کرتے ہیں ، تخت و تاراج
کے مکینوں کو غلام کرتے ہیں اور انہیں
پستیوں میں دھکیل دیتے ہیں ۔۔۔ لیکن یہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
۔۔ جو ک سارے عالم کے لیے رحمت بن کر آئے ہیں ۔۔ خاتم الانبیاء ہیں ۔۔۔۔ ان کی
گردن عجز سے اس حد تک جھکی ہوئی ہے کہ اونٹنی کی گردن تک آرہی ہے ۔۔ اور ہر طرف
امن کا اعلان کر رہے ہیں ۔ فلاں کے گھر میں جو پناہ لے گا وہ امن میں ہے ۔ جو مسجد
الحرام میں داخل ہوجائیگا وہ امن میں ہے ، جو اپنے دروازوں کو بند کر لے گا وہ امن
میں ہے ۔ قریش مکہ سوچ رہے ہیں کہ نہ جانے
اب ہمارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائیگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے دروازے پر
تشریف لاتے ہیں اور شیبی سے کنجیاں طلب کرتے ہیں ، وہ کنجیاں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے استفسار فرماتے
ہیں کہ ۔ اے شیبی بول تجھے یاد ہے جب میں اس جگہ کھڑا تھا جہاں تو کھڑا ہے اور میں
جہاں کھڑا ہوں وہاں تو تھا ۔ شیبی کہتا ہے جی مجھے یاد ہے ۔
آپ صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بول اب کیا معاملہ کیا جائے تیرے ساتھ ؟
اس نے جواب میں ایک جملہ کہا ۔
ایک کریم بھائی اور ایک کریم پیغمبر کے سامنے کھڑا
ہوا ہوں ۔
ہائے ہائے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر قربان جاوں ۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کیا فرماتے ۔
اے شیبی ! یہ کعبے کی کنجی تیرے حوالے کرتا ہوں ،
قیامت تک تیرے ہی خاندان میں رہے گی ۔ اور کوئی دوسرا اسے حاصل نہ کر سکے گا ۔ آج
سے تو اور تیرا خاندان قیامت تک کے لیے متولی ہے ۔
سبحان اللہ سبحان اللہ ۔۔۔ یہ معاملہ صرف اللہ جل
شانہ کے نبی علیہ السلام ہی فرما سکتے ہیں
۔
ماخوذ
از مولانا ولی رازی
شہیر
شہیر
No comments:
Post a Comment