آپ نے نکاح کو مشکل بنا رکھا ہے ۔ جلدی شادی کو عیب سمجھتے ہیں ۔ کثیر الازدواج آپ کے لیے روح فرسا ہے ۔ اور پھر معاشرے میں روا مرد و عورت کے مسائل کا حل مادر پدر آزادی میں تلاش کرتے ہیں ۔ نور اور عینی کی مثال لاتے ہیں ۔ لیکن ان دونوں پہ غور نہیں کرتے ۔ صرف درندگی نظر آرہی ہوتی ہے ۔ درندہ تو درندگی سے باز نہیں آئے گا ۔ ایسے میں غور کرنا ہوتا ہے کہاں کیا غلط ہو رہا ہے ؟
عینی ایک بیوی ہے اور اس کے پاس شرعی اختیار ہے کہ وہ علیحدہ ہوجائے ۔ مگر آپ کے معاشرے میں مطلقہ ہونا جیسے اچھوت ہونا ہے ۔ کیونکہ یہ “ہزاروں سالہ تہذیبی زمین “ ہے ۔ یہاں صاحب استطاعت مردوں کو ایک شادی کی آزادی ہے خواہ وہ باہر زنا کرتا ہھرے ۔ مگر دوسری تیسری شادی کی اجازت نئیں ہے ۔ عورت کی طلاق ہوجائے یا وہ بیوہ ہوجائے تو اب اس کے لیے ساری زندگی گھٹ گھٹ کر جینا آپ ہی نے لکھ دیا ہے ۔ کیونکہ مردوں کو اسے اپنانے کی آپ کی جانب سے اجازت نہیں ۔
ہاں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھی اپنی “ مرضی “ سے تعلقات استوار کرلے اور توڑ لے ، پھر اور کسی سے جوڑ لے ۔ یعنی اسے اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ سو مردوں کے بستر کی زینت بنے پھر بھی کوئی پسند نہ آئے تو اکیلی رہے ۔ یہاں عورت کے لیے کیا مثبت ہے ؟ پھر اس کی توجیہہ کے لیے عورت کے ساتھ پیش آئے درندگی کے واقعات کو سامنے لاتے ہیں ۔ ان کا آپس میں کیا تال میل ہے ؟ دلیل لائیں تو کم از کم منطقی لائیں ۔ عورت کو سوچنا ہوگا وہ “ شوپیس “ نہیں ہے ۔ اس کی زندگی نکاح میں ہے اور اگر شوہر پسند نہیں تو بے جھجھک علیحدہ ہوجائے نہ کہ ظلم سہتی رہے ۔ یہ مسائل چلتے رہیں گے ، دانش گاہیں آباد رہیں گی ان دانشوروں سے جن کے قلم مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDelete