سرمایہ دار اور حضرت انسان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے زوال کے بعد جتنے بھی نظام آئے وہ ناکام ہوئے مگر سرمایہ دار کامیاب ہی نہیں کامیاب ترین ثابت ہوا ۔ اس کا سبب جو مجھے نظر آتا ہے اس نے انسان کا بخوبی مطالعہ کیا اور اس کی “ جبلتوں “ کو نشانہ بنایا ۔ اور اپنی “ مصنوعات” کی طلب پیدا کرتا رہا ۔ اس دوران جو سب سے بڑی رکاوٹ اسے پیش آئی وہ انسانوں کے عقائد تھے ۔ اور اس کو کمزور کرنا نہایت ضروری تھا اسے گاہک بڑھانے تھے اسی طرح ہی پیداوار میں اضافے کا فائدہ ہوسکتا تھا ۔ اس نے اس کے لیے میڈیا کو استعمال کیا اور انسان کے جلد باز جبلت کو نشانہ بنایا ۔ اور اس طرح وہ انسانوں کو اس کی انسانی حیثیت سے گرا کر جانوروں کی جبلت کی سطح پر لے آیا جہاں وہ آزاد رہنا چاہتا ہے ۔ اپنی خواہشات کا اسیر ۔ اپنی ذات میں گم ۔ اسے اس بات کا ادراک ہوچلا ہے کہ وہ مکمل حیاتیاتی مادہ ہے اور وہ جو سوچتا ہے وہی حقیقت ہے ۔ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے سے عاری ہوچکا ہے ۔ اس کی زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل میں اس قدر مصروف ہوگئی ہے کہ وہ اس حصار سے نکل کر سوچنے سے ہی عاری ہوچکا ہے ۔ ایسے میں جب اس کے سامنے مذہب کا نام لیا جاتا ہے تو وہ ناک بھنویں چڑھاتا ہے کیونکہ مذہب تو “ بندگی” کا نام ہے ۔ جس میں خواہشات کے بجائے فطرت کی بات ہوتی ہے ۔ جس میں “ وقتی “ فائدے سے قطع نظر “ دائمی فائدے “ کا عندیہ ہے ۔ اور یہ باتیں اس کی جلد باز طبیعت کو ناشاد کرتی ہیں۔ یوں سرمایہ دار آج اتنی بڑی طاقت بن چکا ہے کہ اربوں انسان ویسا سوچنے لگے ہیں جیسا وہ چاہتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment