Monday, May 15, 2017

عمران خان سے نفرت

عمران خان سے نفرت
شہیر شجاع

پاکستان کی سیاست نے بھٹو کے دور سے ایک الگ موڑ لیا جس نے اس وقت کے نوجوانوں  کو جیالا کھلوانے پر فخر محسوس کروایا چہ جائیکہ اس کی مخالفت میں بھی ایسی ہی تحاریک برپا ہوئیں اور بقول مشاہد حسین سید بھٹو متکبر مغرور سیاستدان تھا جبکہ بھٹو نے سرعام نعرہ لگایا کہ " ہاں میں شراب پیتا ہوں مگر مزدور کا خون نہیں پیتا " ۔ بھٹو نے سندھ سے اٹھ کر پنجاب میں ایسے قدم جمائے کے مطلق العنانوں کو اپنی سیاست کے لالے پڑ گئے ۔ مسلم لیگ کے قابل قدر سربراہ جونیجو کو قربان ہونا پڑا اور دست شفقت میاں صاحب کے سر پر پھیرا گیا کہ بھٹو کے دیوانوں کو سنبھالنا محال ہوگیا تھا ۔ شیخ رشید کے وہ جملے مینار پاکستان میں کھڑے ہوکر جو بی بی کے لیے کہے گئے ذہن سے اب تک محو تو نہیں ہوئے ہونگے ۔ ہم اس وقت بھی اخبار کے شیدائی تھے ۔ اخبار پڑھے بنا کھانا نہیں ہضم ہوتا تھا ۔ اسکول سے آکر کھانے کی پلیٹ اور اخبار ساتھ نہ ہوں تو کھانا ہی پھیکا محسوس ہوتا تھا ۔ ہم نہیں بھولے وہ الزام کی سیاست وہ طعن و تشنیع وہ بڑے بڑے دعوے ۔ وہ گریبان ۔ اس کی جھلک آج بھی سندھ و پنجاب اسمبلی میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیلیویژن پر ن لیگی اخلاق کا بھی بھرپور مظاہرہ روزنہ کی بنیاد پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ 
مگر معتوب عمران خان ہے صرف عمران خان کیونکہ اس کے خلاف ایک ہی وجہ سے نفرت کی جا سکتی ہے اور وہ اس کا کھلنڈرا پن ہے ۔ کیونکہ اس نے حکمرانوں کو اس قدر زود کوب کر رکھا ہے کہ ان کی دوڑیں لگی رہتی ہیں ۔ کرپشن کے ایشو کو اس نے آج مین اسٹریم پہ لا کھڑا کیا ہے ۔ عدالتیں بھی اپنی حیثیت منوانے کا سوچنے لگی ہیں ۔ 
مگر ہمیں عمران خان سے نفرت ہے کیونکہ وہ نوجوانوں کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے ۔ وہ جھوٹا ہے کہ اس نے تعلیم ، صحت اور کرپشن وغیرہ کی بات کی مگر اپنی مطلوبہ مدت میں مکمل نہیں کرپایا ۔ اس نے کوشش کی مگر جھوٹا قرار پایا ۔ 
زرداری و نوازشریف کی جماعتیں پچھلے تیس سال سے ہماری اخلاقی تربیت کر رہی ہیں ۔ جس کا ثمر یہ ہے کہ گلی کوچے میں کرپشن کے ہر شخص کرپٹ ہوچکا ہے ۔ اور شریف صاحب اقرار کرتے ہیں کہ ان کی ترجیح انفرا اسٹرکچر ہے ۔ کرپشن نہیں ۔ سو ظاہر ہے تعلیم بھی نہیں صحت بھی نیں ۔ پی پی نے سندھ کو موہن جو دارو بنا دیا مگر وفاق کی توجہ کا مرکز پنجاب ہے یا بھارت سے تعلقات ۔ 
ہمیں بھی عمران خان سے شکایتیں ہیں ۔ وہ سندھ میں توجہ نہیں دیتا ۔ بلوچستان کی جانب پارٹی اسٹیبل نہیں کرتا ۔ کے پی میں حکومت میں ہے پر میڈیا پر پیسہ خرچ نہیں کرتا یا اس کی میڈیا مینجمنٹ کمزور ہے ۔ وہ مسلسل اپنی تنظیم کو کمزور کرتا جا رہا ہے ۔ وہی اسٹیٹس کو کی لکیر کی جانب جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ مگر اب بھی وہ تنہا ہے اس نے اقرباء پروری کی مثال قائم نہیں کی ۔ کے پی حکومت اس کی دخل اندازیوں سے آزاد ہے ۔ ایسی چند باتیں اب بھی اسے ممتاز کرتی ہیں ۔ مگر ہمیں اس سے نفرت ہے ۔ کیونکہ وہ جھوٹا ہے ۔ حکمرانوں کی ناک کا بال بن گیا ہے ۔ اخلاقی بگاڑ کا باعث  بن رہا ہے ۔ 
اخلاق اخلاق اخلاق ۔۔۔ جماعت اسلامی و جے یو آئی جیسی جماعتوں کو دھتکارتی آئی قوم عمران خان سے نفرت کی وجہ پائے بھی تو کیا سبحان اللہ ۔

Thursday, May 11, 2017

ہاں اپ سب کچھ بتاو !! (ایک تحریر پر تبصرہ )





ہاں اپ سب کچھ بتاو !! (ضیغم قدیر تحریر پر تبصرہ )
شہیر شجاع
ہاں آپ سب کچھ بتاو !!! مگر ہر بات کی ایک منطق بھی ہوتی ہے ۔ غالب گمان ہے لطفظ منطق کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہونگے ۔ جب بات کولر میں لگے گلاس کی ہوتی ہے اسے اس لیے باندھا جاتا ہے کیونکہ یہان بد تہذیبی ہے اس میں بے ایمانی نہیں شامل ۔ چور کا کوئی ایمان نہیں ہوتا ۔ اس کی تربیت غلط ہوتی ہے ۔ اور کوئی کولر کا گلاس چوری نہیں کرتا۔ بلکہ پانی پی کر اسے  واپس اپنی جگہ پہ نہیں رکھتا ۔  آپ کولر لگانے والے کو تھر کے باسیوں کا سوگ سناتے ہو ۔ کیا پتہ اس نے تھر کے لیے کتنی امداد پہلے ہی بھیج رکھی ہو ؟ اللہ کا گھر محفوظ نہ ہونے کی ذمہ داری  عام شہری کی نہیں پر اخلاقی فرض ضرور ہے ۔ اور یہ دو مختلف باتیں ہیں ۔ ذمہ داری  پر سوال اٹھتا ہے اخلاقی ذمہ داری پر جوابدہی نہیں ہوتی (کیونکہ استطاعت کا ہونا نہ ہونا نا معلوم ہے )۔   اور جو لوگ مسجدیں بنواتے ہیں وہ زکوۃ و عشر ، صدقات و فطر ۔ خیرات  و عطیات بھی دیتے ہیں ۔  پڑوسی بھوکا سوتا ہے یہ محض ایک کہاوت ہے یا ایسے موقعوں پر کہا جانے والا محاورہ ۔ کیونکہ ہم نے اعتراض کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے لیے ایسے اعتراض موزوں ترین ہوتے ہیں ۔  مسجد جائے عبادت ہے اس کے حفاظت و دیکھ بھال کی  جس کی استطاعت ہے وہ ذمہ داری اٹھاتا ہے ۔  اور عموما وہ ذمہ دار اکثر مسجد کی گلی کے رہنے والے بھی نہیں ہوتے ۔  اسی طرح  انسانیت کی خدمت کے مختلف ذرائع ہیں ۔  جو حتی الامکان اپنی مدد آپ کے تحت پورے ہورہے ہیں اور وہ بھی پاکستان ہی ہیں ۔
روشنی  کی کرن جھانکنا ایک اچھی سوچ ہے اس کے جواب میں جو تحریر سامنے آئی اس میں ہر جواب میں بد ظنی کا اظہار ہے جو کہ کم از کم  روشنی کی کرن جھانکنے پر اعتراض کہا جاسکتا ہے یا اس سے آنکھیں چرانا ۔  اگر ہم دونوں تحاریر پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو دونوں ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔ پہلی تحریر مکمل طور پر معاشرتی  اصلاح اور سماجی رویوں پر مشتمل ہے ۔ جبکہ جواب میں سماج   اور ریاستی اداروں کا باہمی مقابلہ کیا گیا ہے جو کہ کسی بھی طرح  اس پہلی تحریر کا جواب نہیں ہو سکتا ۔ بیشک ہمارا معاشرہ  تہذیب و اخلاق کے پیمانوں سے ماورا ہوتا جارہا ہے ۔ جہاں قندیل بلوچ(مرحومہ اللہ جل شانہ مغفرت فرمائیں ) جیسوں کو ہیرو بنا کر پیش کیے جانے کی  سوچ جنم لیتی ہے تو دوسری جانب نہایت ہی سخت الفاظ میں اس سوچ پر اظہار رائے کیا جاتا ہے ۔  ایک سوچ اخلاقی رویوں کے پاسداران کو ابھارنے کا موجب ہوتی ہے تو دوسری  شدت کا بیانیہ بن کر سامنے آتی ہے ۔  سو چہار جانب منفی رویے دیکھنے میں آتے ہیں اور اس کی وجہ منفیت   کی جانب زیادہ توجہ دینا ہے ۔ جبکہ  ہر واقعہ ، عمل ، مشاہدہ وغیرہ منفی و مثبت دونوں  صفات کا حامل ہوتا ہے ۔ اب یہ  تجزیے کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ منفیت کی نفی کرے اور اثبات کو ابھارے ۔  اس جوابیہ تحریر کا بھی جائزہ لیا جائے تو یہ بھی فوری رد عمل کا شاخسانہ معلوم  ہوتی ہے ۔ جس میں ایک مثبت رائے کو قبول نہ کرنے کی ضد محسوس ہوتی ہے ۔ یہی وہ رویہ ہے جس سے سماج کو دور کرنے کے لیے  روشنی کی کرن کی جانب  دیکھنے کی استدعا کی گئی تھی ۔ کہ تلاش وہ کریں جس کی سماج کو ضرورت ہے اور جو معاشرت کے لیے زہر قاتل ہے اس پر تنقید کریں ۔ یہ بھی ایک فن ہے جو لکھنے والے کے ذریعے قاری کی ذہن سازی کرتا ہے کہ وہ  ایک ہی وقت میں دونوں چیزیں دیکھ رہا ہوتا ہے ایک کے لیے اس کے دل میں نفی کے جذبات جنم لیں اور دوسرے کو اپنانے کے۔ لکھنا ہی کمال نہیں پڑھنے کا بھی ایک سلیقہ ہے ۔ اور پڑھتے وقت ذہن خالی رکھنا ہر رد عمل سے عاری رکھنا اشد ضروری  ۔ یوں ہو تو بصیرت نہیں پیدا ہوجاتی ؟
 محض تنقید ، تنقید ، تنقید آگے جا کر تنقیص کی صورت میں نمودار ہوتی ہے ۔ اور اسی روش نے نظریات کے تصادم کو شدت پسندانہ رویہ فراہم کیا ہے ۔ درپیش مسئلے پر  سب سے پہلے غور کیا جانا ضروری ہے ۔ اس کے بعد اس مسئلے کے عناصر کا تجزیہ اپنی فہم و ادراک کی کسوٹی پر پرکھنا ، تب جا کر کسی نتیجہ خیزی کی جانب پہنچا جا سکتا ہے ۔ بصورت دیگر ایک خوبصورت ، صحت مند تحریر پر بھی کچھ یوں مدافعانہ ردعمل سامنے آتا ہے ۔ کہ قاری بھی غش کھا کر گر پڑے ۔ عصر حاضر میں تو  ہم پاکستانی اتنے بد اعتماد ہو چکے ہیں ہمیں کوئی کیا سبز باغ دکھائے ؟ کوئی سبز باغ پر سچ بھی بول رہا ہو تو ہم کہاں یقین کرتے ہیں ؟  خامیوں کو سامنے لانا اور چیز ہے ۔ مثبت رویے 
کی استدعا اور چیز  ۔ ان دونوں کو خلط ملط نہیں ہونا چاہیے ۔ والسلام


( جس پر تبصرہ کیا گیا ضیغم قدیر کی تحریر 
https://daleel.pk/2017/05/11/42765

محسن حدید کی تحریر 
https://daleel.pk/2017/03/28/36537-- 
صاحب یوں تو کام نہیں چلے گا
شہیر شجاع
انتالیس ممالک کی فوج کا سربراہ پاکستان سے چنا گیا
جس پر چالیسویں ملک کو اعتراض ہے  
 کیا ہی اچھا ہوتا وہ چالیسواں ملک بھی اس مجموعے میں شامل ہوتا ؟ اور پھر اعتراض ہم پر ہی کہ انتالیس ملکوں کی سربراہی تمہاری جانب سے کیوں ؟ اور ہم اتنے بے کس ، انتالیس کا مجموعہ بھی ہمیں معذرت خواہانہ رویہ رکھنے پر مجبور ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ  چالیسواں ملک ہمیں ایک زبردست قسم کی دھمکی بھی رسید کر دیتا ہے ۔ اور ہم چوزوں کی طرح چوں چوں کرنے لگتے ہیں ۔
بھارت کے معاملے میں رویہ معذرت خواہانہ ۔۔
افغانستان کے معاملے میں معذرت خواہانہ ۔۔
 آخر ہماری پالیسی ہے کیا ؟
"آپ کہہ دیں کہ سول حکومت کے پاس پوٹینشل ہے کہ وہ ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے ۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے آگے مجبور ہے ۔" معذرت !! یہ دلیل قابل قبول نہیں ہے ۔
کیونکہ !!
ہم نے خارجہ امور پر کبھی پارلیمنٹ میں بحث ہوتے نہیں دیکھا ۔ کبھی پارلیمینٹیرینز کی جانب سے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی جانب اقدام نہیں دیکھے ۔ جب پارلیمان ایسے مقدمات پر بحث کرے اور کوئی مضبوط لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کرے گی ۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کے پاس اختیارات محدود ہوجائیں گے ۔ مگر جب تک دارومدار ایک خاندان اور فرد واحد کے گرد گھومے گا ۔ یہ بے چینی ہمیشہ قائم رہے گی ۔ منطقی نتائج بہرحال کبھی حاصل نہیں ہوسکتے ۔
ایک رائے اس منتخب حکومت کے انداز حکمرانی کو دیکھتے ہوئے  یہ بھی ابھر کر آئی ہے کہ ۔۔   حساس خارجہ امور کو عوام کی آگاہی سے مکمل بلیک آوٹ رکھا جائے ۔ اور تمام ناکامی کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کے سر تھوپ دی جائے ۔ اس طرح خصوصا ن لیگ کو پسند کرنے والوں کے ذہن میں راسخ کردہ سوچ کہ " اسٹیبلشمنٹ کام کرنے نہیں دیتی " مزید مضبوط ہو ، اور حکمرانوں کے سر سے ذمہ داری کا بوجھ بھی اتر جائے ۔
سرمایہ دار بالاضافہ خاندان کی بالادستی بالغرض جمہوریت جب تک قائم ہے  ، مثبت نتائج کی تمنا چہ معنی دارد ؟
۔۔۔۔ صاحب یوں تو کام نہیں چلے گا

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...