کلچر
شہیر شجاع
روز مرہ زندگی میں بہت سے ایسے الفاظ تبدیل ہو کر ایک بھوت کی شکل اختیار کر گئے ہیں
۔ جس وجہ سے اصل مفہوم ،اعتبار و قدر
تک ، ذہن کی رسائی آسان نہیں رہی ۔ علاوہ
یہ کہ غور کیا جائے ۔ ایسا ہی ایک لفظ کلچر ہے ۔
جس کے تحت ، تہذیب ، ثقافت ،
تمدن وغیرہ آجاتے ہیں ۔ عام دیکھا جائے تو
تہذیب و تمدن ، ثقافت ، معاشرت جیسے الفاظ ہماری زبان کا حصہ تو ہیں مگر ان کے
معانی کا ادراک موجود نہیں ۔ اس کی جگہ لفظ " کلچر " نے لے لی ہے ۔ جس
میں معاشرے کے ہر اچھے برے افعال کو
پرودیا گیا ہے ۔ نواقص و کمال سب ایک
ساتھ جڑ کر " کلچر" کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ
اذہان پر خلل ڈالنا زیادہ آسان ہوگیا ہے
۔ جہاں رشوت بازاری ، چوری ، ڈاکہ زنی ،
زیادتی ، غیرت کے نام پر قتل ، نکاح کا مشکل
اور زنا کا آسان ہونا ۔ جہیز و دیگر مختلف معاشرے کے ناسور، اسی کلچر کا عکس اختیار کر چکے ہیں ۔ ذہن یہ
سوال کرنے لگا ہے کہ ہمارا کلچر خراب ہے ۔ مغربی کلچر میں آزادی ہے امن ہے ، حفاظت
ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں اسی روایتی ذہن کو لیکر چلتے ہوئے بات کریں تو واقعتا
ہمارا کلچر ناسور بن گیا ہے ۔ اسے صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے ۔ دوسرے الفاظ میں جیسے کہا جاتا ہے یہ نظام گل سڑ
گیا ہے اسے ختم کردینا چاہیے ۔ اس کی جگہ کوئی نیا نظام ہو ۔ سرسری طور پر دیکھا
جائے تو بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے ۔ مگر غور کیا جائے تو یہ تصور نہایت ہی سطحی
تصور ہے ۔
کیونکہ ہمارے پاس اپنی تہذیب اور ثقافت موجود ہے ۔ اور اپنی مکمل رعنائی کے
ساتھ موجود ہے ۔ تمدن وقت کے ساتھ ساتھ
تبدیلیاں لیکر آتا ہے ۔ مگر تہذیب و ثقافت میں خاص نمایاں بدلاو نہیں آتا ۔ آسان
الفاظ میں ہماری تہذیب آسمانی ہے ۔ اور
ثقافت کا تعلق علاقائی طرز زندگی سے ہوتا ہے ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ جل شانہ
نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں ایک بہترین تہذیب سے آراستہ
فرمایا ہے ۔ اس تعلق سے پوری امت مسلمہ
مختلف ثقافتوں کے ساتھ ایک ہی ہار کے مختلف رنگا رنگ و مختلف خوشبووں سے آراستہ ایک ہار ہے
۔ لہذا ہم اس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر
سکتے چہ جائیکہ پہلے ہم اپنی تہذیب کا مکمل ادراک کریں ۔ اپنی ثقافت کی خوشبو سے
اپنے آپ کو مہکائیں اور تہذیب سے اپنے اخلاق و کردار ، طرز زندگی کو منور کرنے کی
کوشش کریں ۔ جب تک ہم اس عمل سے
گزر نہیں جاتے ہم نتیجہ خیز گفتگو کے گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ کیونکہ تجربہ
کیے بنا ہم کیونکر حکم لگا سکتے ہیں ؟ آپ عام رائج کلچر سے بیزار تو ہیں ۔ مگر
اپنی تہذیب و ثقافت سے نا آشنا بھی ہیں
۔ اور مشکل یہ ہےکہ، یہ تہذیب جیسے موئن جودارو جیسی تہذیب ہوگئی ہو
جو کہیں نظر ہی نہیں آتی ۔ کہ اسے دیکھ کر ہی احساس ہو کہ ہاں واقعی ہماری تہذیب
تو یہ ہے ، جبکہ ہم نے کس رستے کا اپنے آپ کو مسافر بنا رکھا ہے ؟ اسی طرح ثقافت کی اپنی مہک ہے ، اپنی محبت ہے
۔ یہ مٹی کی خوشبو ہے ، اور مٹی میں اچھی کھاد ہو ، وقت پر پانی ملے ، خوب خیال رکھا جائے تو
ہریالی بھی جنت نظیر ہوتی ہے ۔ وگرنہ بنجر زمین
بنا آب و دانہ سیم و زر کا شکار ہوجاتی
ہے ۔ یا پھر برسات کے بعد کیچڑ بن کر
مسافروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے ۔
تمدن چونکہ زمانے کے ساتھ خاص
ہے اسی لیے اس میں جدت آتی رہتی ہے اور اس
جدت کو تہذیب کا پیمانہ سنوارے رکھتا ہے ۔ معتدل
رہنا ہی ضمانت ہے سکون کی اور بنا
سکون کے تمدن کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اور ثقافت اس میں رنگ بھرتا ہے جس سے زندگی کے
لوازمات کی تکمیل ہوتی ہے ۔
اب جو کچھ ہمارے معاشرے میں روا ہے ۔ یہ دراصل کچھ بھی
ہمارا اپنا نہیں اور بہت کچھ ہم میں ماحول کے اثرات ہیں ۔ جیسے جہیز ، غیرت کے نام
پر قتل ، جوائنٹ فیملی سسٹم ، مختلف اوہام
، مختلف رسومات خصوصا شادی بیاہ سے متعلق ، عورت کی تعلیم ، یا عورت کی زندگی سے متعلقات ۔ ایسے بیشتر
رواج ماحولیاتی ہیں ۔ یہ نہ ہی ثقافت ہیں نہ تہذیب ۔ یہ تو ہم نے ہندوستان میں
رہتے ہوئے ہندووں کے اثرات اپنا رکھے ہیں ۔ جس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ معاشرہ
خاطر خواہ خواندہ ہونے کے باوجود اب تک ان رسوم و رواج سے کنارہ نہیں کر پا رہا ہے
۔ رہی سہی کسر امراء ، رؤساء پوری کردیتے
ہیں ۔ جو شان و شوکت کے اظہار میں ایسے رسوم و رواج کو فروغ دینے اور غریب طبقے
میں احساس کمتری پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔
سو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل جو کچھ بھی ہمارے معاشرے میں رائج ہے یہ نہ
ہی ہماری تہذیب ہے اور نہ ہی ثقافت ۔ یہ
دوسری تہذیبوں کے اثرات ہیں جو ہمارے اجداد سے چلتے آرہے ہیں جو کبھی ہندو
ہوا کرتے تھے ۔ سو یوں سمجھنا کہ ہم کوئی
نیا کلچر پیدا کر لینگے ایسا کبھی ممکن نہیں۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ ہم اپنی تہذیب کی
جانب لوٹ جائیں ۔ اپنی ثقافتوں کا احترام کریں اور اپنی جڑوں سے جڑ جائیں ۔ تب ہی
جا کر ان بیماریوں کا علاج ممکن ہے جو کہ ہمارا " کلچر " بن چکی ہیں
۔ جیسے ہمارے پاس آئین موجود ہے یعنی نظام
موجود ہے مگر عمل پذیر کچھ اور ہی ہے ۔ سو یہ کچھ اور ختم ہو کر اصل کی جانب لوٹنا
اہم ہے ۔
No comments:
Post a Comment