حلب سے نکلتا دھواں
شہیر شجاع
ایسی تاریخی سرزمین ہے ۔ جس خطے نے صدیوں کے عروج و زوال
دیکھے ہیں ۔جس کا خاص حصہ مسلمانوں سے جڑا ہے ۔ انہی کے عروج و زوال کے مناظر اس
خطے کے درو دیوار میں اب تک پیوست ہیں ۔
اور وہی خطہ آج خون میں نہایا ہوا ۔ جس خطے نے دنیا کو تہذیب سے روشناس کرایا ۔ انساں کو انساں ہونے کا یقین دیا ۔ علوم و فنون کے جوہر سے آشنا کیا ۔ جو دنیا میں گوشے گوشے میں پیغام امن و ایمان پہنچانے کے ذرائع کا اہم جزو قرار پایا ۔ وہی آج شدید بد امنی و بے کسی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ اس خطے کے رشتوں میں تو ساری دنیا قرار پاتی ہے
۔ مگر کلمہ لا الہ الا اللہ کے تعلق سے
ملت اسلامیہ کا رشتہ ان سے خاص ہے ۔ کوئی آواز گرچہ اٹھتی دکھائی نہیں دیتی
۔ خون جگر کا بہتے نظر نہیں آتا ۔ مناظر البتہ نہایت ہی مضحکہ خیز ہیں ۔۔ ٹھیک ان
دنوں جب آگ و خون کی بارش میں وہ بے کس و بے آسرا خواتین و حضرات ۔ بچے و بوڑھے ۔
مدد مدد پکار رہے تھے ۔ آسمان جن کا سرخ
ہو چکا تھا ۔ زمین تنگ ہوچکی تھی ۔ ان کا عرش میں
اللہ جل شانہ اور زمین میں امت
محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواوں کے سوا کوئی نہ تھا ۔ اور محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ان دنوں ۔ اربو ں کھربوں روپے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشیاں
منانے پر لٹا رہے تھے ۔ وہاں بہنوں کی عصمتیں لٹ رہی تھیں ۔ یہاں دھمال ڈالے جا
رہے تھے ۔ وہاں بچے ذبح ہو رہے تھے ۔ یہاں کیک کاٹے جا رہے تھے ۔ زمینِ حلب سسکتی
رہی ۔ اور زمین عجم میں گریہ و دھمال کا
امتزاج عجب رہا ۔ مگر کوئی تلوار نہ اٹھ سکی
جو مظلوم کی داد رسی کے مقصد سے ظالم کی گردنوں کو پاش پاش کر دے ۔ کسی "
عظیم مسلم راہنماوں " میں کسی میں جرات
و بیباکی نظر نہ آئی جو مظلوم کلمہ گو مسلمانوں کو آغوش رحمت کی کم از کم یقین دہانی ہی کراتا
۔ کوئی جماعت اٹھتی جو مظلوموں کی پشت پر کھڑی ہوتی ۔ ظالم سوچنے پر مجبور
ہوتا ۔ اس کے دل میں دبدبہ پیدا ہوتا ۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔ سلسلہ
بدستور جاری و ساری ہے ۔ چند مزید بے بس
انسانوں کا اپنے کلمہ گو بھائی بہنوں بیٹیوں
کے لیے گریہ سڑکوں ، اور سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا تک محدود ہے ۔ مساجد میں دعائیں ہوتی ہیں تو اس میں بھی
مفادانہ نہج محسوس ہوتی ہے ۔ جیسے انصاف سے بڑھ کر ہمارے لیے مسلک و مذہب اول ہوں ۔ ہماری زندگی کا مقصد مسلک
و مذہب کا احیاء ہو ۔ مگر انصاف ؟ انصاف
کا طلبگار کوئی نہیں ۔ یہ کیسی پستی میں ہم آگرے ہیں ۔ انصاف کے نام پر
مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ مسلک کے نام پر قتل ہوتا
ہے ۔ مذہب کے نام پر ٹھٹھہ ہوتا ہے
۔ انصاف
تو امن کا ضامن ہے ۔ پھر کیوں منصف
ناپید اور طلبگار بے بس ہیں ؟ اور
جنہیں انصاف کا علم بلند کرنا چاہیے ۔
انصاف کا تقاضہ گلی محلے ، گھر گھر اجاگر کرنا چاہیے ، وہ اذہان کو
سڑے ہوئے انڈوں کی باس کیوں بنا رہے ہیں ؟
سماج و معاشرت انصاف
کے جھنڈے تلے پنپتے ہیں ۔ جہاں انصاف نا پید ہوجائے وہ معاشرہ گل سڑ جاتا
ہے ۔ اور اس کی بدبو اذہان کو شدید پراگندہ کر دیتے ہیں ۔ جس کا مشاہدہ ہم زندگی کے اس دور میں دیکھ سکتے ہیں ۔ جب کبھی اس زمانے کی تاریخ لکھی جائیگی تو ظالم کا
بو ل بالا لکھا جائے گا ۔ مظلوم اس قدر منتشر
ہوگا کہ اسے یہ بھی علم نہیں رہا
ہوگا کہ وہ مظلوم ہے یا ظالم ؟یہ سماج ،
زوال کی ان تاریک حدوں کو چھو رہا ہے جس کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی شعوری طور پر سماج کو پراگندہ کر رہا ہے ۔ جب زمین سے علم ، سیاست و سیادت ، اور سب سے
اہم انصاف ختم ہو جاتا ہے ، پھر ایسے ہی مسائل سے سماج کا سامنا ہوتا ہے ۔ سماج نے
اب تک مرض کی تشخیص کی کوئی سنجیدہ سعی نہیں کی ۔ پھر کیونکر علاج ممکن ہو
؟
ان دنوں ایک تاریخ
لکھی گئی تھی ۔۔۔ جن کے دو باب ہمارے سینوں میں
ہر دن آگ دہکائے رکھتے ہیں ۔ جب
مملکت خداداد کا ایک بہترین خواندہ طبقہ اپنے آپ کو الگ کر گیا ۔ اور ہم تڑپتے رہ
گئے ، بلکتے رہ گئے ۔ مسمساتے رہ گئے ۔
اور اس کے ٹھیک چار دھائیوں کے بعد ایک اور تاریخ لکھی گئی ۔ جب معصوم بچوں
کے خون سے زمین تڑپ اٹھی ۔ در و دیوار لرز کر رہ گئے ۔ ماؤں کے دل پھٹ گئے ۔ آباء کے بازو کٹ گئے ۔ گریہ و زاری کا بازار گرم ہوا
۔ آگ و خون کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ مگر ۔۔ مگر ۔۔ مگر
۔۔ ان سب کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہ
سیکھا ۔ ہم نے اپنی روش نہ بدلی ۔ ہماری نیند کا خمار نہ چَھٹ سکا ۔
ہمارے دل نہ بدل سکے ۔ ہمارا شعور
اب بھی ویران راہوں میں بھٹک رہا ہے ۔ ہماری توجہ کا محور اب بھی ہماری
اپنی کوشش اور ہمارے اپنے مفاد کا مسبب
نہیں بلکہ ہمارا ذہن ، ہماری سوچ ، اور
ہمارے مسئلے وہ ہیں جو ہمیں بتائے گئے ہیں ۔ کسی نے کیا خوب لکھا ہے ۔ یہ "پوسٹ
ٹروتھ" ہماری زندگی بن چکی ہے ۔ آسان لفظوں میں پروپیگنڈے سے متاثر ۔ علم و
شعور سے دور ، عقل کی بنیادوں سے
محروم ہم اپنی ہی جڑیں کاٹتے جا رہے ہیں
۔ زمین ظلم و جور سے بھرتی جا رہی ہے ۔
مظلوموں کی چیخ و پکار بے معنی ہو کر رہ گئی ہے ۔
ایسے میں ایک شخص کی موت
ہوتی ہے ۔ اسی سماج کی شعوری کوشش سے ایک طیارہ تباہ ہوتا ہے سینتالیس
جانیں اللہ جل شانہ کو پیاری ہوتی ہیں ۔ ان میں ایک ایسا شخص بھی ہوتا ہے ۔ جس کی
موت ہمیں جھنجوڑ ڈالتی ہیں ۔ کم از کم ایک خوبصورت امید کے موتی ہماری آنکھوں میں
جھلملانے لگتے ہیں ۔ دلوں کی دھڑکن
کو چند پر امید ساعتیں میسر آتی ہیں ۔ کہ چراغ کی لو
مدہم ضرور ہے پر بجھی نہیں ۔ تیل ابھی باقی ہے ۔
No comments:
Post a Comment