Friday, December 16, 2016

حلب سے نکلتا دھواں

حلب سے نکلتا دھواں
شہیر شجاع
ایسی تاریخی سرزمین ہے ۔ جس خطے نے صدیوں کے عروج و زوال دیکھے ہیں ۔جس کا خاص حصہ مسلمانوں سے جڑا ہے ۔ انہی کے عروج و زوال کے مناظر اس خطے  کے درو دیوار میں اب تک پیوست ہیں ۔ اور وہی خطہ آج خون میں نہایا ہوا ۔ جس خطے نے دنیا کو تہذیب  سے روشناس کرایا ۔ انساں کو انساں  ہونے کا یقین دیا ۔ علوم و فنون  کے جوہر سے آشنا کیا ۔ جو  دنیا میں گوشے گوشے میں پیغام امن و ایمان  پہنچانے کے ذرائع  کا اہم جزو قرار پایا ۔  وہی آج شدید بد امنی و بے کسی  کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔  اس خطے کے رشتوں میں تو ساری دنیا قرار پاتی ہے ۔ مگر   کلمہ لا الہ الا اللہ  کے تعلق سے   ملت اسلامیہ کا رشتہ ان سے خاص ہے ۔ کوئی آواز گرچہ اٹھتی دکھائی نہیں دیتی ۔ خون جگر کا بہتے نظر نہیں آتا ۔ مناظر البتہ نہایت ہی مضحکہ خیز ہیں ۔۔ ٹھیک ان دنوں جب آگ و خون کی بارش میں وہ بے کس و بے آسرا خواتین و حضرات ۔ بچے و بوڑھے ۔ مدد مدد پکار رہے تھے ۔ آسمان  جن کا سرخ ہو چکا تھا ۔ زمین تنگ ہوچکی تھی ۔ ان کا عرش میں  اللہ جل شانہ اور زمین میں  امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواوں کے سوا کوئی نہ تھا ۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ان دنوں ۔ اربو ں کھربوں روپے  ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشیاں منانے پر لٹا رہے تھے ۔ وہاں بہنوں کی عصمتیں لٹ رہی تھیں ۔ یہاں دھمال ڈالے جا رہے تھے ۔ وہاں بچے ذبح ہو رہے تھے ۔ یہاں کیک کاٹے جا رہے تھے ۔ زمینِ حلب سسکتی رہی ۔ اور زمین عجم   میں گریہ و دھمال کا امتزاج عجب رہا ۔ مگر  کوئی تلوار نہ اٹھ سکی جو مظلوم کی داد رسی کے مقصد سے ظالم کی گردنوں کو پاش پاش کر دے ۔ کسی " عظیم مسلم راہنماوں " میں کسی میں جرات  و بیباکی نظر نہ آئی جو مظلوم کلمہ گو مسلمانوں  کو آغوش رحمت کی کم از کم یقین دہانی ہی کراتا ۔ کوئی جماعت اٹھتی  جو مظلوموں  کی پشت پر کھڑی ہوتی ۔ ظالم سوچنے پر مجبور ہوتا ۔ اس کے دل میں دبدبہ پیدا ہوتا ۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے ۔  چند مزید بے بس انسانوں کا اپنے کلمہ گو بھائی بہنوں بیٹیوں  کے لیے گریہ سڑکوں ، اور سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا  تک محدود ہے ۔   مساجد میں دعائیں ہوتی ہیں تو اس میں بھی مفادانہ  نہج محسوس ہوتی ہے ۔ جیسے  انصاف سے بڑھ کر ہمارے لیے  مسلک و مذہب اول ہوں ۔ ہماری زندگی  کا مقصد مسلک  و مذہب کا احیاء ہو ۔ مگر انصاف ؟ انصاف  کا طلبگار کوئی نہیں ۔ یہ کیسی پستی میں ہم آگرے ہیں ۔ انصاف کے نام پر مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ مسلک کے نام پر قتل ہوتا  ہے ۔ مذہب کے نام پر ٹھٹھہ  ہوتا ہے ۔   انصاف  تو  امن کا ضامن ہے ۔ پھر کیوں منصف ناپید اور طلبگار  بے بس ہیں ؟ اور جنہیں  انصاف کا علم بلند کرنا چاہیے ۔ انصاف کا تقاضہ گلی محلے ، گھر گھر اجاگر کرنا چاہیے ، وہ  اذہان کو  سڑے ہوئے انڈوں کی باس کیوں بنا رہے ہیں ؟
سماج و معاشرت انصاف  کے جھنڈے تلے پنپتے ہیں ۔ جہاں انصاف نا پید ہوجائے وہ معاشرہ گل سڑ جاتا ہے ۔ اور اس کی بدبو اذہان کو شدید پراگندہ کر دیتے ہیں ۔ جس کا مشاہدہ ہم  زندگی کے اس دور میں دیکھ سکتے ہیں ۔ جب  کبھی اس زمانے کی تاریخ لکھی جائیگی تو ظالم کا بو ل بالا لکھا جائے گا ۔ مظلوم اس قدر منتشر   ہوگا کہ اسے یہ بھی علم نہیں  رہا ہوگا کہ وہ مظلوم ہے یا ظالم ؟یہ سماج  ، زوال کی ان تاریک حدوں کو چھو رہا ہے جس کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی  شعوری طور پر سماج کو  پراگندہ کر رہا ہے  ۔ جب زمین سے علم ، سیاست و سیادت ، اور سب سے اہم انصاف ختم ہو جاتا ہے ، پھر ایسے ہی مسائل سے سماج کا سامنا ہوتا ہے ۔ سماج نے اب تک  مرض کی تشخیص کی کوئی  سنجیدہ سعی نہیں کی ۔ پھر کیونکر علاج ممکن ہو ؟  
ان دنوں  ایک تاریخ لکھی گئی تھی ۔۔۔ جن کے دو باب ہمارے سینوں میں  ہر دن  آگ دہکائے رکھتے ہیں ۔ جب مملکت خداداد کا ایک بہترین خواندہ طبقہ اپنے آپ کو الگ کر گیا ۔ اور ہم تڑپتے رہ گئے ، بلکتے رہ گئے ۔ مسمساتے رہ گئے ۔  اور اس کے ٹھیک چار دھائیوں کے بعد ایک اور تاریخ لکھی گئی ۔ جب معصوم بچوں کے خون سے زمین تڑپ اٹھی ۔ در و دیوار لرز کر رہ گئے ۔ ماؤں  کے دل پھٹ گئے ۔ آباء  کے بازو کٹ گئے ۔ گریہ و زاری کا بازار گرم ہوا ۔ آگ و خون  کی  ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ مگر ۔۔ مگر ۔۔ مگر ۔۔  ان سب کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا ۔ ہم نے اپنی روش نہ بدلی ۔ ہماری  نیند کا خمار نہ  چَھٹ سکا ۔  ہمارے دل نہ بدل سکے ۔ ہمارا شعور  اب بھی ویران راہوں میں بھٹک رہا ہے ۔ ہماری توجہ کا محور اب بھی ہماری اپنی کوشش اور ہمارے اپنے مفاد  کا مسبب نہیں بلکہ ہمارا ذہن ، ہماری سوچ ، اور  ہمارے مسئلے وہ ہیں جو ہمیں بتائے گئے ہیں ۔  کسی نے کیا خوب لکھا ہے ۔ یہ "پوسٹ ٹروتھ" ہماری زندگی بن چکی ہے ۔ آسان لفظوں میں پروپیگنڈے سے متاثر ۔ علم و شعور سے دور ، عقل  کی بنیادوں سے محروم  ہم اپنی ہی جڑیں کاٹتے جا رہے ہیں ۔  زمین ظلم و جور سے بھرتی جا رہی ہے ۔ مظلوموں کی چیخ و پکار بے معنی ہو کر رہ گئی ہے ۔
ایسے میں ایک شخص کی موت  ہوتی ہے ۔ اسی سماج کی شعوری کوشش سے ایک طیارہ تباہ ہوتا ہے سینتالیس جانیں اللہ جل شانہ کو پیاری ہوتی ہیں ۔ ان میں ایک ایسا شخص بھی ہوتا ہے ۔ جس کی موت ہمیں جھنجوڑ ڈالتی ہیں ۔ کم از کم ایک خوبصورت امید کے موتی ہماری آنکھوں میں جھلملانے لگتے ہیں ۔ دلوں کی دھڑکن  کو  چند  پر امید ساعتیں میسر آتی ہیں ۔ کہ چراغ کی لو مدہم ضرور ہے پر بجھی نہیں ۔ تیل ابھی باقی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...