چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں وقت سے ناطہ جوڑیں
شہیر شجاع
لمحے کی جیسے کوئی قدر ہی نہ رہی ہو ۔ وقت نے ایسی تیز
رفتاری پکڑی جیسے اسے دنیا کے لوگوں سے اب کوئی غرض ہی نہ
رہ گئی ہو ۔ ایسے جیسے راہ چلتا اجنبی سڑک
کنارے کھڑے لوگوں پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر گزر جاتا ہے ۔ جبکہ وہ اگر اجنبی نہ ہو تو والہانہ استقبال کا
باہم منظر دیکھنے میں آتا ہے ۔ وائے ٹو کے کا شور بپا تھا ، کل کی سی بات لگتی ہے
۔ بیشمار واقعات و سانحات رونما ہوئے ۔ تاریخ نے ایک نیا رخ لیا ۔ مگر ہمیں محسوس
ہی نہ ہوا ۔ پلَک جھپکتے میں مناظر دھندلا
گئے ۔ اور سولہ سال یوں ہی بیت گئے ۔ وہی
نعرے وہی شور ، وہی الزام تراشیاں ۔ ایک دوسرے کا گریبان ، طاقتور کا ہاتھ کمزور
کا گال ۔ غریب کی جھونپڑی امیر کا بنگلہ ۔ تجارت کی کسوٹی فریب و مکاری کا بازار ۔ ہر ایک پاپی ہے مگر کوئی پاپی نہیں ۔ ہمیں برائیاں آسانی سے نظر آجاتی ہیں ۔ مگر
اچھائی صرف اپنے آپ میں ہی نظر آتی ہے ۔ فضا سوگوار محسوس ہوتی ہے مگر رات اندھیرے پھیلا تعفن ہمیں بدبودار محسوس نہیں ہوتا ۔ ہمیں تن میں اجلے کپڑوں کی ضرورت
تو محسوس ہوتی ہے مگر روح کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی ۔ خوشیوں بھرے لمحوں میں
بھی اداسی تلاش کر لیتے ہیں ۔ اداسی اس قدر مرغوب ہوگئی ہے کہ اس کو حاصل کرنے میں
مشاق ہوگئے ہیں ۔ ہماری
نفسیات میں تعمیر کا عنصر ناپید اور تخریب کا عنصر وافر ہو چلا ہے ۔ چہار سو فضا
پراگندہ ہے ۔ کہیں کوئی روشنی کی کرن نمودار ہوتی ہے تو ہمیں یقین کرنا دشوار
ہوجاتا ہے ۔
یہ وقت آخر اتنا
اجنبی کیوں ہوگیا ہے ؟ صبح اٹھتے ہیں تو وقت نکل چکا ہوتا ہے ۔ شام آتے
ہیں تو وقت ساتھ نہیں ہوتا ۔ رات سوتے ہیں تو وقت کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔ کتاب
اٹھاتے ہیں تو وقت روٹھ جاتا ہے ۔ سوچتے ہیں تو وقت کہیں دور نکل چکا ہوتا ہے ۔ وقت سے تو ہماری
کافی گہری دوستی ہوا کرتی تھی ۔ آج اس قدر دوری کیوں پیدا ہوگئی ہے ؟ ہم یا
تو دوربین لیکر اپنے سماج کو دیکھتے ہیں یا خوردبین کے ذریعے اپنا سراپا ۔نتیجتا ہمیں اپنا عکس کہیں نہیں نظر آتا
۔ ہم دوربین اٹھائے اپنے مقاصد کو ترتیب دیتے ہیں ۔ خوردبین کے ذریعے مسائل کی
تسخیر ہوتی ہے ۔ اور پھر وسائل کی جستجو میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ماہ و سال بیت جاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر دوربین
اٹھاتے ہیں وہی منظر اسی جگہ موجود ہوتا ہے ۔
ہم ایک لمبی آہ بھرتے ہیں ۔ خوردبین اٹھاتے ہیں اور اپنے آپ کو بیشمار
مسائل کے حصار میں موجود پاتے ہیں ۔ ایک
ہیجان بپا ہوتا ہے ۔ دل کی دھڑکنیں ڈھیلی پڑنے لگتی ہیں ۔ کہیں ہمت و حوصلہ پست ہونے لگتا ہے ۔ کبھی اپنے
آپ کو اسی حال پر چھوڑ دیتے ہیں تو کبھی اسی سراب کے پیچھے دوڑ لگا دیتے ہیں ۔
یہ وقت آخر کیوں نہ اجنبی ہو ؟ ہم نے وقت کو اپنا کب مانا
ہے ؟ ہمیشہ اس کو ٹھکرایا ہے ۔ اس کی تذلیل کی ہے ۔ اسے خوش آمدید نہیں کہا ہے ۔
اس کی مہمان نوازی نہیں کی ہے ۔ اسے بس ہم
نے اپنے آس پاس دوڑتے بھاگتے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا ہے ۔ سو اس نے بھی ہم سے ناطہ
توڑ لیا ۔ وہ آگے آگے اور ہم پیچھے پیچھے ۔ دوڑتے چلے
جارہے ہیں اور بس دوڑتے چلے جا رہے ہیں ۔ ہمیں کوئی دائیں سے چپت مارتا ہے ، ہم اس
کی جانب دوڑنے لگتے ہیں ، کوئی بائیں سے تو ہم بائیں ، غرض ایک نہ ختم ہونے والی جستجو ہے جس کی
کوئی منزل ہی نہیں سراب ہی سراب ۔ میں ادب
میں پناہ لینا چاہتا ہوں ۔ تو وہاں مجھے
روتا دھوتا شاعر ملتا ہے ۔ جہاں نظر کروں آنسو ہیں کراہیں، اور سسکیاں ۔ سوچتا ہوں
کیا دنیا میں کوئی خوش نہیں ہے ؟ کیا وقت
کی ناراضی پر خوشی اس کے ساتھ ہی چلی گئی ہے ؟ میرے سامنے اقبال آتا ہے ۔ ذہن کے در کھلنے لگتے ہیں ۔ ایسے میں ایک زور
کی چپت میری گردن پر پڑتی ہے ۔ طنز و
تنقیص کے تیر اوراق کو لہولہان کر دیتے
ہیں ۔ میں تلملا جاتا ہوں ۔ میرے کان سرخ ہوجاتے ہیں ۔ مجھے کوئی راہ
سجھائی نہیں دیتی ۔ پھر کوئی سال اختتام کو پہنچتا ہے ۔ پھر دوربین و خوردبین کا
سلسلہ ہوتا ہے ۔ اور پھر وہی دوڑ ۔
چلیں دوربین وخوردبین سے خلاصی حاصل کریں ۔ دوہزار سترہ کا
سورج طلوع ہو رہا ہے ۔ ہم اپنی یعنی قدرتی
اللہ جل شانہ کی دی ہوئی نعمت آنکھوں سے اپنا
سراپا دیکھیں ۔ ایک تنقیدی نظر ڈالیں ۔ جسم میں موجود نعمتوں کو دیکھ کر رب
کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں ۔ شکر کے گیت گائیں ۔ دل کو خوشی سے آشنا کریں ۔ پھر چہار جانب نگاہ دوڑائیں ابتداء اپنے پیروں سے کریں اور نظریں بڑھاتے
چلے جائیں ۔ اسی طرح دائیں بائیں آگے پیچھے ۔ جو کچھ دوربین نے دکھایا تھا اس کے
علاوہ حقیقت کا ادراک کریں ۔
اپنی شناخت کی جانب قدم بڑھائیں۔ پرندوں کی چہکار میں چھپی سرسراتے جمال سے اپنی
سماعتوں کو آشنا کریں ۔ چلیں دو ہزار سترہ
کے سورج کو خوش آمدید کریں ۔ وقت سے دوستی کریں ۔ اسے اپنا بنانے کی جستجو کریں ۔
وقت کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی آرزو کریں ۔ چلیں اپنے شعور کو بیدار کریں ۔ اپنے آپ کو چہار سو پھیلی
پراگندگی کی زنجیروں سے آزاد کریں ۔ ذہن کو سوچنے دیں ۔ افکار کی دنیا آباد کریں ۔
چلیں محبت کو عام کریں ۔ اپنی دنیا خود
آباد کریں ۔ چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں اور وقت سے ناطہ جوڑیں ۔ اسے اپنی تاثیر سے اپنا تابع بنا ئیں ۔ زمانے
کی الٹی چال کو نظر انداز کریں ۔ اپنے قدم اور اپنے راستوں کا انتخاب کریں اور اس
مین ڈٹ جائیں ۔ دل کو مسرت و درد کی آماجگاہ
بنائیں ۔ وہ درد جو دوسروں کا ہو ۔ جس کو مسرت میں تبدیل کرنے کی جستجو ہو ۔ اس کو
اپنے دامن سے شروع کریں ۔ چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں وقت سے ناطہ جوڑیں ۔
No comments:
Post a Comment