Saturday, December 31, 2016

چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں وقت سے ناطہ جوڑیں

چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں وقت سے ناطہ جوڑیں
شہیر شجاع
لمحے کی جیسے کوئی قدر ہی نہ رہی ہو ۔ وقت نے ایسی تیز رفتاری  پکڑی  جیسے اسے دنیا کے لوگوں سے اب کوئی غرض ہی نہ رہ گئی ہو ۔  ایسے جیسے راہ چلتا اجنبی سڑک کنارے کھڑے لوگوں پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر گزر جاتا ہے ۔  جبکہ وہ اگر اجنبی نہ ہو تو والہانہ استقبال کا باہم منظر دیکھنے میں آتا ہے ۔ وائے ٹو کے کا شور بپا تھا ، کل کی سی بات لگتی ہے ۔ بیشمار واقعات و سانحات رونما ہوئے ۔ تاریخ نے ایک نیا رخ لیا ۔ مگر ہمیں محسوس ہی نہ ہوا  ۔ پلَک جھپکتے میں مناظر دھندلا گئے ۔ اور سولہ سال یوں ہی بیت گئے ۔  وہی نعرے وہی شور ، وہی الزام تراشیاں ۔ ایک دوسرے کا گریبان ، طاقتور کا ہاتھ کمزور کا گال ۔ غریب کی جھونپڑی امیر کا بنگلہ ۔ تجارت کی کسوٹی  فریب و مکاری کا بازار ۔ ہر ایک  پاپی ہے مگر کوئی پاپی نہیں ۔   ہمیں برائیاں آسانی سے نظر آجاتی ہیں ۔ مگر اچھائی صرف اپنے آپ میں ہی نظر آتی ہے ۔ فضا سوگوار  محسوس ہوتی ہے مگر  رات اندھیرے پھیلا تعفن ہمیں بدبودار محسوس  نہیں ہوتا ۔ ہمیں تن میں اجلے کپڑوں کی ضرورت تو محسوس ہوتی ہے مگر روح کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی ۔ خوشیوں بھرے لمحوں میں بھی اداسی تلاش کر لیتے ہیں ۔ اداسی اس قدر مرغوب ہوگئی ہے کہ اس کو حاصل کرنے میں مشاق  ہوگئے ہیں  ۔  ہماری نفسیات میں تعمیر کا عنصر ناپید اور تخریب کا عنصر وافر ہو چلا ہے ۔ چہار سو فضا پراگندہ ہے ۔ کہیں کوئی روشنی کی کرن نمودار ہوتی ہے تو ہمیں یقین کرنا دشوار ہوجاتا ہے ۔
 یہ وقت آخر اتنا اجنبی کیوں ہوگیا  ہے ؟  صبح اٹھتے ہیں تو وقت نکل چکا ہوتا ہے ۔ شام آتے ہیں تو وقت ساتھ نہیں ہوتا ۔ رات سوتے ہیں تو وقت کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔ کتاب اٹھاتے ہیں تو وقت روٹھ جاتا ہے ۔ سوچتے ہیں تو وقت  کہیں دور نکل چکا ہوتا ہے ۔ وقت سے تو ہماری کافی گہری دوستی ہوا کرتی تھی ۔ آج اس قدر دوری کیوں پیدا ہوگئی ہے ؟   ہم  یا تو دوربین لیکر اپنے سماج کو دیکھتے ہیں یا خوردبین کے ذریعے اپنا  سراپا ۔نتیجتا ہمیں اپنا عکس کہیں نہیں نظر آتا ۔ ہم دوربین اٹھائے اپنے مقاصد کو ترتیب دیتے ہیں ۔ خوردبین کے ذریعے مسائل کی تسخیر ہوتی ہے ۔ اور پھر وسائل کی جستجو میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ  ماہ و سال بیت جاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر دوربین اٹھاتے ہیں وہی منظر اسی جگہ موجود ہوتا ہے ۔  ہم ایک لمبی آہ بھرتے ہیں ۔ خوردبین اٹھاتے ہیں اور اپنے آپ کو بیشمار مسائل کے حصار میں موجود پاتے ہیں ۔  ایک ہیجان بپا ہوتا ہے ۔ دل کی دھڑکنیں ڈھیلی پڑنے لگتی ہیں ۔  کہیں ہمت و حوصلہ پست ہونے لگتا ہے ۔ کبھی اپنے آپ کو اسی حال پر چھوڑ دیتے ہیں تو کبھی اسی سراب کے پیچھے دوڑ لگا دیتے ہیں ۔
یہ وقت آخر کیوں نہ اجنبی ہو ؟ ہم نے وقت کو اپنا کب مانا ہے ؟ ہمیشہ اس کو ٹھکرایا ہے ۔ اس کی تذلیل کی ہے ۔ اسے خوش آمدید نہیں کہا ہے ۔ اس کی مہمان نوازی نہیں کی ہے ۔ اسے  بس ہم نے اپنے آس پاس دوڑتے بھاگتے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا ہے ۔ سو اس نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا  ۔  وہ آگے آگے اور ہم پیچھے پیچھے ۔ دوڑتے چلے جارہے ہیں اور بس دوڑتے چلے جا رہے ہیں ۔ ہمیں کوئی دائیں سے چپت مارتا ہے ، ہم اس کی جانب دوڑنے لگتے ہیں ، کوئی بائیں سے تو ہم بائیں  ، غرض ایک نہ ختم ہونے والی جستجو ہے جس کی کوئی منزل ہی نہیں سراب ہی سراب ۔  میں ادب میں پناہ لینا چاہتا ہوں ۔ تو  وہاں مجھے روتا دھوتا شاعر ملتا ہے ۔ جہاں نظر کروں آنسو ہیں کراہیں، اور سسکیاں ۔ سوچتا ہوں کیا دنیا میں کوئی خوش نہیں ہے ؟ کیا  وقت کی ناراضی پر خوشی اس کے ساتھ ہی چلی گئی ہے ؟ میرے سامنے اقبال آتا ہے ۔  ذہن کے در کھلنے لگتے ہیں ۔ ایسے میں ایک زور کی چپت میری  گردن پر پڑتی ہے ۔ طنز و تنقیص کے تیر اوراق کو لہولہان کر دیتے  ہیں ۔ میں  تلملا جاتا ہوں  ۔ میرے کان سرخ ہوجاتے ہیں ۔ مجھے کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی ۔ پھر کوئی سال اختتام کو پہنچتا ہے ۔ پھر دوربین و خوردبین کا سلسلہ ہوتا ہے ۔ اور پھر وہی دوڑ ۔
چلیں دوربین وخوردبین سے خلاصی حاصل کریں ۔ دوہزار سترہ کا سورج طلوع ہو رہا ہے ۔ ہم اپنی  یعنی قدرتی اللہ جل شانہ کی دی ہوئی نعمت آنکھوں سے اپنا  سراپا دیکھیں ۔ ایک تنقیدی نظر ڈالیں ۔ جسم میں موجود نعمتوں کو دیکھ کر رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں ۔ شکر کے گیت گائیں ۔ دل کو خوشی سے آشنا کریں ۔  پھر چہار جانب نگاہ دوڑائیں  ابتداء اپنے پیروں سے کریں اور نظریں بڑھاتے چلے جائیں ۔ اسی طرح دائیں بائیں آگے پیچھے ۔ جو کچھ دوربین نے دکھایا تھا اس کے علاوہ  حقیقت کا ادراک   کریں ۔ اپنی شناخت کی جانب قدم بڑھائیں۔ پرندوں کی چہکار میں چھپی سرسراتے جمال سے اپنی سماعتوں کو آشنا کریں  ۔ چلیں دو ہزار سترہ کے سورج کو خوش آمدید کریں ۔ وقت سے دوستی کریں ۔ اسے اپنا بنانے کی جستجو کریں ۔ وقت کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی آرزو کریں ۔  چلیں اپنے شعور کو  بیدار کریں ۔ اپنے آپ کو چہار سو پھیلی پراگندگی کی زنجیروں سے آزاد کریں ۔ ذہن کو سوچنے دیں ۔ افکار کی دنیا آباد کریں ۔ چلیں محبت کو عام کریں ۔ اپنی دنیا  خود آباد کریں ۔ چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں اور وقت سے ناطہ جوڑیں  ۔    اسے اپنی تاثیر سے اپنا تابع بنا ئیں ۔ زمانے کی الٹی چال کو نظر انداز کریں ۔ اپنے قدم اور اپنے راستوں کا انتخاب کریں اور اس مین ڈٹ جائیں ۔ دل کو  مسرت و درد کی آماجگاہ بنائیں ۔ وہ درد جو دوسروں کا ہو ۔ جس کو مسرت میں تبدیل کرنے کی جستجو ہو ۔ اس کو اپنے دامن سے شروع کریں ۔ چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں وقت سے ناطہ جوڑیں ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...