Friday, December 30, 2016

لبرل پاکستان یا اسلامی پاکستان فیصلہ آپ کا

لبرل  پاکستان  یا اسلامی پاکستان فیصلہ آپ کا
شہیر شجاع
دنیا میں  چہار جانب جہالت ، ظلم و جور کا بازار گرم تھا ۔   طاقتوروں کا راج تھا ، کمزور غلام تھا ۔ خون ارزاں تھا ۔ عورت ایک جنس تھی یا  لڑکی کی پیدائش پر ہی اسے زندہ درگور کر دیا جاتا ۔ قیصر و کسری خدا بنے بیٹھے تھے ۔   دنیا میں کوئی ایسا نظام نہ تھا جو خدا کی زمین پر  خدا کے بندوں کو ایک صف میں کھڑا کرسکے ۔ انصاف قائم ہو ۔ امیر غریب ، زبان و نسل کی تفریق ختم ہو ۔ ایسے میں اللہ جل شانہ نے دنیا کو اسلام کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ۔  جس مرسل کو ہی رحمت سے تعبیر کیا گیا ہو ، اس کے ذریعے سے زمین کے لیے آنے والا نظام کس قدر رحمتوں والا ہوگا ؟  دنیا میں امن و آشتی کا دو ر دورہ ہونے لگا ۔ انسان کو انسان کی شناخت ملنے لگی ۔ اس کی سانسوں نے سکون محسوس کیا ۔ عورت کو اس کا مقام ملا اور علم و ہنر کا دور دورہ ہوا ۔ دنیا  ایک نئے دور میں داخل ہوئی ۔ ایک نئے نظام سے آشنا ہوئی ۔ جس نے تمام تفریق مٹا کر انسان کو اس کی شناخت مہیا کی ۔ اسے سوچنے سمجھنے،  چلنے پھرنے ۔ غرض زندگی کو پنپنے  کے لیے آزادی میسر آئی ۔ 
ہزار سال اس نظام نے دنیا کو مستفید کیا ۔ خلافت راشدہ کے بعد جو بھی ادوار رہے ان میں بیشک یہ نظام مکمل نہ تھا۔ اس کا سارا نزلہ بھی اپنوں پر ہی گرتا رہا ۔ بڑے بڑے علماء و حق گو اس کی زد میں آئے ۔ اقتدار کی کشمکش نے اپنا ہی خون بہایا ۔ مگر تاریخ میں کبھی اس نظام کے علمبرداروں  کے ہاتھوں غیر مسلموں کا ناحق خون بہتا نظر نہیں آتا ۔ تاریخ گواہ ہے  یہ نظام جب تک اپنی بنیادوں پر استوار رہا خواہ  کسی بھی سطح پر رہا اس نے دنیا کے کونے کونے میں امن و آشتی کا پیغام پھیلایا ۔ انصاف کو عام کیا ۔  ظلم و جور  و نانصافی کا شکار ہوئے بھی تو اپنے ہوئے ۔  جیلوں میں  قید زندگی سے ہارے بھی تو اپنے ۔ مگر اپنی رعایا  میں کسی اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک ہوا ہو ایسی مثال نہیں ملتی ۔ زمانہ حال قریب  کی سلطنت عثمانیہ  کے  سلطان سلیمان جسے ذیشان کا لقب بھی اسی دنیا نے دیا ۔ اور رومن بادشاہ یہ کہے بنا نہ رہ سکا کہ دنیا کو اگر امن دے سکتا ہے تو ہ سلیمان ذیشان ہے ۔ سلیمان ذیشان اسی نظام کا علمبردار تھا ۔ ہسپانیہ کے ذروں کو علوم و فنون کے ساتھ ساتھ تمدن سے آشنا کرنے والے بھی اسی نظام کے علمبردار تھے ۔ ایک شاندار  ماضی اس نظام  کی افادیت  کی گواہ ہے ۔ جب دنیا سے اس نظام کے علمبردار ختم ہونے لگے ۔ یہ نظام مٹنے لگا تو اللہ جل شانہ نے ایک ایسی سرزمین کو  چنا جو کہ کسی اور ہی سمت واقع تھا مگر جغرافیہ اس کا نہایت ہی کرشماتی تھا ۔ جس کا نام پاکستان قرار پایا ۔ کہ اس سرزمین کے ذریعے اس نظام کی آبیاری ہوگی ۔ اور دنیا کو پھر سے امن و آشتی ، انصاف ، علوم و فنون ، اخلاق و کردار و دیگر زندگی کے تمام  اصناف سے آراستہ نظام میسر آئے گا ۔ جو کہ صرف اور صرف اللہ کا نام لینے کی وجہ سے   ہمہ وقت ظلم کا شکار رہا ۔ غیر تو غیر اپنے بھی  اس کار گہ عمل میں نمایاں رہے ۔
پاکستان وجود میں آگیا ۔ جب دنیا سے اسلامی نظام ختم ہو چکا تھا ۔ سوشل ازم ، کمیونزم ، فاشزم اور کیپٹل ازم آپس میں نبرد آزما تھے ۔  یہ تمام ہائے نظام بنیادی طور پر  نظام حیات کا محض ایک حصہ تھے ۔ سو کیونکر انسان کو ایک مکمل نظام مہیا کر سکتے تھے؟  بھلا ایک ٹکڑا بھی کبھی مکمل قرار پا سکتا ہے ؟     اسلام کے علمبردار وں کے لیے یہی دین نظام حیات تھا ، اور ہے ۔ سو دنیا نے اس بات کو محسوس کر لیا ۔ وہ تو چاہتے تھے کہ یہ نام دنیا سے ختم کر دیا جائے ۔ سو جمہوریت نام کا ایک نیا اصطلاحی نعرہ بلند ہوا ۔ جو بظاہر قابل قبول بھی تھا ۔ پاکستان نے بھی اسے قبول کیا کہ یہ بنیادی نظام سے تضاد نہیں رکھتا تھا ۔ سو  اللہ بھلا کرے اس جمہوریت کا جس نے  سیاست کو اقتدار کی کشمکش میں تبدیل کردیا ۔  مغربی دنیا نے اسے انہی اصولوں پر اپنایا جو کہ اسلام نے دیے تھے ۔ مگر ہم نے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا ۔  اب جبکہ جمہوریت  اپنی جڑیں خود ہی کھوکھلی کرنے لگیں تو  بنیادوں پر ضرب لگانے کو نیا شوشہ ہاتھ آگیا ۔ کہ یہ نظام ہی خراب ہے ۔  بھلا کیوں ؟ نظام تو ٹھیک تھا پھر خراب کیوں ٹہرا ؟ اب انجن میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو انہیں ٹھیک کیا جاتا ہے ، زنگ  لگ جائے تو اس کا زنگ اتارا جاتا ہے ۔ نیا انجن بھی بنایا جائے تو اس کے تمام پرزہ جات وہی ہوتے ہیں جو پچھلے انجن کے تھے ۔ سو انجن کو ہی پھینک دینے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا ۔ اور نت نئی آراء نے ابحاث کی شکل اختیار کر لی ۔ جس میں سیکولر و لبرل خیالات کا زور و شور سے نعرہ بلند ہونے لگا ۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا اسلامی نظام میں حقوق تلفی کی جاتی ہے ؟ یا اس میں اب بھی کجی ہے ؟ یا اسلامی نظام میں سیاست و سیادت کے اصول کامل نہیں ہیں ؟  اسلامی نظام کیا معاشرت کے اصول نہیں سکھاتا ؟ کیا   ارتقائی دنیا کے جدید قوانین کے لیے پیمانہ نہیں مہیا کرتا ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اس نام کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا  گوارا کر لیا گیا اور لبرل و سیکولر جیسے " ناموں " کو چسپاں کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ؟ اگر اپنی زمین میں امن قائم کرنا ہے ۔ انصاف مہیا کرنا ہے ۔ اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے ہیں ۔ کیا نظام کو سیکولر و لبرل نام دے دینے سے ہی ایسا ممکن ہے ،جبکہ نظام  اسلامی ہی ہو ؟ پھر کیوں اسلام کا نام اور اس عظیم نظام کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی تگ و دو ہے ؟
پاکستان کا آئین جسے اسلامی کہا گیا ہے اسے مکمل نافذ کر کے ، نظام کو اس کے اصل نام یعنی اسلامی سے پکار کر اس کی افادیت دنیا  کے سامنے  ظاہر کرکے کیوں نہ ان تمام جھوٹے نظاموں کی نفی کی جائے جس نے دنیا میں  آج ایک مرتبہ پھر طاقتور و امیروں کی اجارہ داری قائم کر دی ہے ۔  اس نظام کو کسی نئے بیانیے کی ضرورت نہیں ۔ بیانیہ بھی موجود ہے اور راہ عمل بھی سامنے ہیں ۔ بس اس جانب سفر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نام سے آپ کو الرجی ہوگی ہمیں نہیں ہے ۔ ہم اسی نام کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسے کسی بھی دوسرے نام کی  جسے نک نیم کہہ لیں اس کی ضرورت نہیں ۔ جبکہ یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں ۔۔ اسلام سربلند ہونے کے لیے دنیا میں آیا ہے ۔ ان تمام بہانوں سے نہ تو  پاکستان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی اسلام کی خدمت ہو سکتی ہے ۔  پاکستان کا نظام اسلامی ہے اور رہے گا ان شاء اللہ ۔ اور دنیا ضرور دیکھے گی کہ اسلامی نظام ہی دراصل دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں  کے لیے مفید ہے ۔ جس جانب دنیا نے سفر تو کر دیا ہے ۔ مگر ہمارے اپنے ہی اس نام کو مٹا دینے کی جستجو میں ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...