Wednesday, December 14, 2016

بغداد و حلب ، اور دستور غلامی




بغداد و حلب ، اور دستور غلامی
شہیر شجاع
بغداد  وہ شہر ہے جس کی علم سے بہتی نہروں سے دنیا مستفید ہوئی ۔ جہاں ظلم و انصاف   ، علم و ادب ، خزاں و بہار ، خون و پھول ۔۔ غرض زندگی کے ہر روپ کی کلی یہاں سے مہکی اور گدلے پانی کی مہک بھی طبیعت کو ناشاد کرتی رہی ۔ یہاں تک ایک دن آیا وہ سب نیست و نابود ہوگیا ۔۔۔ مگر جو بیج وہاں بویا گیا، اس کی تازگی ، اور اس شجر کی آب و تاب عرصہ دراز تک  مدہم نہ ہو سکی ۔
ایک عورت کی پکار ۔۔۔ وا معتصماہ ۔۔۔ پر خلیفہ کا تخت سے اتر کر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ جانے اور ننگی تلوار میان سے نکال کر اعلان کرنا کہ جب تک میں اس خاتون کو انصاف نہ دلا دوں میں چین سے نہ بیٹھوں گا ۔ یہ صدا آج بھی درو دیوار میں گونجتی ہے ۔۔
جب  بغداد سے حلب تک، ماوں سے بچوں کو چھین کر انہیں ذبح کیا جاتا ہے ، تو وہ صدا سسکتی ہوئی کہتی ہے ، میں اس قدر بے حس تو نہ تھی ؟
  حجاج بن یوسف پکار اٹھتا ہے ، میں اس قدر ظالم تو نہ تھا ۔۔ ؟ میری حدود میں کوئی میری ماوں بہنوں بیٹیوں بچوں پر ذرہ بھر ظلم کر جائے ، کسی  میں اتنی جرات تو نہ تھی ؟  
یہ کیسے لوگ ہیں جو اسی سرزمین پر بے یار و مددگار ہیں ؟
ان کی پکار  بے آب و گیاہ صحرا میں  ایک گونج کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتی ؟
اربوں دل ان پکار پر خون خون کیوں نہیں ہوتے ؟َ
حلب کی لٹتی عصمت  دنیا میں زندہ دل کہلائے جانے والے اورمذہب سے بالا انسانیت کا درس دینے والوں کی آنکھوں میں چند قطرے تک نہیں پیدا کرسکتی ؟
اتحاد بین المسلمین کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اور ہمیں اتحاد بین المذاہب کا درس کیوں دیا جا رہا ہے  ؟ جس کی آڑ میں ،معصوم و نہتے کلمہ گو ، خون میں نہاتے چلے جا رہے ہیں ۔تر بتر ہیں ، بے گھر و بے آسرا ہیں۔ 
امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، یہ تمام فوجیں وہاں موجود ہیں ۔ پر زمین ان کی نہیں ہے ۔ پھر یہ کس کی زمین ہے ؟ کس کا خون بہہ رہا ہے ؟ کیوں اس خون کی بو ہمارے دلوں کو تڑپنے پر مجبور نہیں کر دیتی ؟ مغربی دنیا محفوظ پر مشرقی دنیا مجبور و بے کس کیوں ہے ؟
کیا ہماری آنکھوں میں یونہی پٹیاں پڑی رہیں گی ؟ ہمیں فریق نہیں بننا ۔ ہمیں امتی بننا ہے ۔ پر کیسے ؟ لبرل و سیکولر کی جنگ لڑ کر ؟
ہم انصاف کے جھنڈے تلے کھڑے ہونے کی تاب نہیں رکھتے۔ پر ہمیں لبرل ، سیکولر،سوشلسٹ ، کمیونسٹ ، فاشسٹ ،اسلامسٹ کی جنگ لڑنی ہے ۔  ہم ان ابحاث میں اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں ۔ ساتھ ساتھ ہمارے گھر جلتے جا رہے ہیں ۔ آگ بالکل ہمارے درمیان پہنچ چکی ہے ۔ مگر شاید ہمارا  دل اب اس قدر سیاہ ہوچکا ہے کہ ، اس کی تپش ہمیں محسوس نہیں ہوتی ۔
اتحاد سے پہلے انصاف کی ضرورت ہے۔ اپنے ذہن کو انصاف کے تابع کرنے کی ضرورت ہے ۔۔ جب ہم میں انصاف کی پہچان ہوجائے، اس کی طلب پیدا ہوجائے، اس کے لیے مر مٹنے کا جذبہ بیدار ہوجائے ۔  خودبخود ۔ انسانیت جی اٹھے گی ۔ تمام مسالک مر جائیں گے ۔ بس رہے گا نام خدا کا ۔۔۔ اور زندگی ہنسے گی کھیلے گی ۔۔۔۔
 ہوش میں آنے کا مقام ہے ۔۔۔ ہمارے ابحاث یہ نہیں کہ ہمیں سیکولر ہونا ہے یا لبرل ، سوشل ، کمیونسٹ یا اسلامسٹ ؟
ہمیں انصاف کے جھنڈے تلے جمع ہونا ہے ۔ اس کے بعد ہی میرے اور آپ کے نظریات ایک دوسرے کے لیے محترم ہو سکتے ہیں ۔ ورنہ میری مائیں بہنیں بچے یوں ہی جلتے رہیں گے ۔۔ اور نفرتوں کا الاو جلتا رہے گا ۔۔ یہاں تک کہ ایک دن یہ آگ ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی ۔پکارنے پر بھی کوئی مدد کو نہیں آئے گا ۔ روح تو جل کر خاکستر ہو چکی ۔ بچا کھچا بدن بھی نیست و نابود ہو جائے گا ۔
یہ آہیں ،  یہ سسکیاں ۔ خون میں لتھڑی ، بے گورو کفن لاشیں ۔ مجھ سے جواب طلب کرتی ہیں ۔  مجھے اپنے رشتے کا سوال کرتی ہیں ۔ وہ ذبح ہونے والا بچہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھتا ہے ۔ کیا میرا تیرا رشتہ نہیں ؟  میری آنکھیں جھک جاتی ہیں ۔   مگر ان میں ایک قطرہ آنسو کا نہیں چھلکتا ۔ میرا دل نہیں پھٹتا ۔ دوسرے ہی لمحے میں اپنا رخ بدل کر  زندگی کا درس دینے اور لینے لگتا ہوں ۔ جس میں انسانیت بالائے مذہب سے اول مقام رکھتی ہے ۔ میرے دل میں ٹیس نہیں اٹھتی ، جو سوال کرے ۔ مذہب وانسانیت کے علاوہ بھی  ایک مسلک ہے ۔ اور وہ ہے غلامی ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...