Thursday, December 22, 2016

مجلس شوری ، قانون سازی اور عوام

مجلس شوری  ، قانون سازی اور عوام
شہیر شجاع
ہماری عدالتوں سے ایک  گونج لہراتی ، بل کھاتی ملک کے دانشوروں ، قانون دانوں ، سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ، عام شہری ، صحافت کے ایوانوں ، غرض چپے چپے  سے ٹکرا کر پاش پاش ہو رہی ہے ۔ لیکن کہیں اس گونج پر فکر کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ وہ صدا کیا ہے ؟
" ہم انصاف دینا اور کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر قانون کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے " ۔  یہ وہ صدا ہے جو قیام پاکستان سے اب تک ملک کے گوشے گوشے کی پکار ہے ۔  ہم نے بڑی مشکلوں سے اللہ جل شانہ  کے فضل و کرم سے ایک بہترین آئین  کی تشکیل کی  ۔ یہ واقعہ قیام پاکستان کے کوئی چھبیس سال بعد پیش آیا ۔ اس سے پہلے بھی آئین بنے ،ٹوٹے ،  پھاڑے گئے ۔ ۔  آج  ستر سال مکمل ہونے کو ہیں ۔ ہماری  مجلس شوری  یا پارلیمنٹ  اب تک قانون سازی  کے عمل کو اس مقام تک نہیں پہنچا پائی جہاں سے عدالتیں  مملکت خداداد کے باشندوں کو  انصاف فراہم کرسکیں ۔   کہا جاتا ہے بوٹوں کی دھمک نے  پارلیمنٹ کی تکریم کو اس قدر پامال کیا ہے کہ اس کو اپنے مقام تک پہنچنے میں  وقت لگ رہا ہے ۔ یا یہ کہ طاقت کا مکمل ادارہ اب تک پارلیمنٹ نہیں بن سکا ہے ۔ یا اس جیسے مختلف  بہانوں  کے ذریعے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک  کر ہمدردیاں سمیٹی جاتی رہی ہیں اور جا رہی ہیں ۔ سوال یہ کہ پارلیمنٹ  کی تکریم کو حقیقت بنانے کے لیے ملک کا غریب و نادار یا متوسط طبقہ سڑکوں پر نکل کر ، اور لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہو کر ووٹ دے کر چند افراد کو یہ ذمہ داری سونپتا ہے ۔ کیا ان ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ؟   بہت عرصے  بعد عام آدمی پارلیمنٹ کی  جانب نظریں مرکوز کرنے اور وہاں پیش آنے والے واقعات  کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوا ہے ۔ تو وہ دیکھتا ہے اس ادارے  میں  " پارٹیاں(ٹولے) " ہوتی ہیں ۔ " ذمہ دار " یا " سیاستدان" نظر نہیں آتے ۔   جہاں جھوٹ کو " سیاسی بیان " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اور سیاست کے لفظ کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ سیاست کو سماج کا سب سے بہترین اور محترم پیشہ قرار دیا گیا ہے ۔ کیا یہ وہی سیاست ہے ؟ یہ سوال ایک عام سماج کے طالبعلم کے ذہن میں اٹھتا ہے ۔  وہ دیکھتا ہے  ۔پارلیمنٹ  جسے ہم اپنی زبان میں مجلس شوری کہیں تو  اس ادارے کے خدو خال اور اس کے  اغراض و مقاصد زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ،  وہاں قوم کے نمائندوں کی جگہ پارٹی کے نمائندے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر یا رہنما کی اصطلاح ایک ایسے شخص کی ہے جو ان نمائندوں کے لیے نعوذ باللہ خدا کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس کے اچھے برے افعال کی پردہ پوشی اور سینہ زوری کی حد تک  دفاع ان نمائیندوں کی ذمہ داری ہو ۔ جنہوں نے انہیں وہاں بھیجا ہے ، ان کے  اغراض کہیں دور سڑکوں میں ایک پنڈال کے اوپر ڈائس میں کھڑے شخص کے جھوٹے وعدوں کی شکل میں گونج بن کر رہ جاتے ہیں ۔ جس گونج  کو سینے سے لگائے ،افراد  ان کے حق میں سڑکوں پر کئی دنوں تک اپنے کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ حلق  سے محض نعرے بلند ہوتے ہیں جس کا مقصد ان کے حقوق ، اور انصاف کی سربلندی ہی ہوتا ہے ۔ اور پھر ایک دن لمبی قطاروں کے صبر آزما لمحات ، جس میں سوا نیزے   پر آئے سورج کی تپش  ، دھول مٹی وغیرہ سے نبرد آزما ہو کر  صرف ایک ووٹ دیتے ہیں  ۔ جس ووٹ کو پانے کے لیے  وہ ادارہ انسانیت سوز حالات  تک سے  اپنی عوام کو نہیں نکال پائے ۔  
بہر حال  مجلس شوری  دراصل ملک کے بہترین اذہان  کے مل بیٹھنے کا ادارہ ہے ۔ جنہیں عوام الناس منتخب کرتے ہیں ۔  وہ دیکھتا ہے ، ملک کے سب سے بہترین اذہان ، جھوٹ  ، فریب ، مکاری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ اور ان سب کا مقصد اپنے ملک سے وفاداری بھی نہیں بلکہ اپنی پارٹی سے وفاداری ہے ۔ وہاں ٹھیکوں پر بحث ہوتی ہے ۔ وہاں وزارتوں پر بحث ہوتی ہے ۔ اس مجلس میں شوری کا عمل مفقود دیکھ کر اس کا دل بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کے دماغ میں گونج ابھرتی ہے ۔ جمہوریت ہی ہماری بقا ہے ۔ ایک اور گونج ابھرتی ہے ، جمہوریت بہترین اتنقام ہے ۔ وہ سوچتا ہے ۔ انتقام کس کے خلاف ؟
یوں صدی بیتتنے کو ہے اور قانون سازی کا عمل جمود کا شکار ہے ۔ وہ منتخب نمائندے   اپنے اپنے مفاد کے لیے لڑتے رہیں گے ۔ ہر پانچ سال بعد ڈائس پر کھڑے ہو کر ہمیں چورن بیچیں گے ۔ اور ہم ذوق و شوق سے وہ چورن  چاٹ کر اسی   جنون کے ساتھ انہیں واپس انہیں مسندوں پر بٹھائیں گے ۔ جہاں  بیٹھ کر ان کی تمکنت  ایک مرتبہ پھر قائم ہوجائے گی ۔ پھر مفادات کی جنگ ہوگی ۔ انصاف  کے ادارے ایک جانب کھڑے ان کا چہرہ تکتے رہیں گے ۔  اور انصاف کی  بے بس صدائیں ہونہی  ایوانوں سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہیں گی ۔  

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...