مجلس شوری ، قانون
سازی اور عوام
شہیر شجاع
ہماری عدالتوں سے ایک
گونج لہراتی ، بل کھاتی ملک کے دانشوروں ، قانون دانوں ، سیاستدانوں ،
بیوروکریٹس ، عام شہری ، صحافت کے ایوانوں ، غرض چپے چپے سے ٹکرا کر پاش پاش ہو رہی ہے ۔ لیکن کہیں اس
گونج پر فکر کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ وہ صدا کیا ہے ؟
" ہم انصاف دینا اور کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر قانون کے
خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے " ۔ یہ وہ
صدا ہے جو قیام پاکستان سے اب تک ملک کے گوشے گوشے کی پکار ہے ۔ ہم نے بڑی مشکلوں سے اللہ جل شانہ کے فضل و کرم سے ایک بہترین آئین کی تشکیل کی
۔ یہ واقعہ قیام پاکستان کے کوئی چھبیس سال بعد پیش آیا ۔ اس سے پہلے بھی
آئین بنے ،ٹوٹے ، پھاڑے گئے ۔ ۔ آج ستر
سال مکمل ہونے کو ہیں ۔ ہماری مجلس
شوری یا پارلیمنٹ اب تک قانون سازی کے عمل کو اس مقام تک نہیں پہنچا پائی جہاں سے
عدالتیں مملکت خداداد کے باشندوں کو انصاف فراہم کرسکیں ۔ کہا
جاتا ہے بوٹوں کی دھمک نے پارلیمنٹ کی
تکریم کو اس قدر پامال کیا ہے کہ اس کو اپنے مقام تک پہنچنے میں وقت لگ رہا ہے ۔ یا یہ کہ طاقت کا مکمل ادارہ
اب تک پارلیمنٹ نہیں بن سکا ہے ۔ یا اس جیسے مختلف بہانوں
کے ذریعے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہمدردیاں سمیٹی جاتی رہی ہیں اور جا رہی ہیں
۔ سوال یہ کہ پارلیمنٹ کی تکریم کو حقیقت
بنانے کے لیے ملک کا غریب و نادار یا متوسط طبقہ سڑکوں پر نکل کر ، اور لمبی لمبی
قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہو کر ووٹ دے کر چند افراد کو یہ ذمہ داری سونپتا ہے ۔ کیا
ان ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ؟ بہت عرصے
بعد عام آدمی پارلیمنٹ کی جانب
نظریں مرکوز کرنے اور وہاں پیش آنے والے واقعات
کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوا ہے ۔ تو وہ دیکھتا ہے اس ادارے میں
" پارٹیاں(ٹولے) " ہوتی ہیں ۔ " ذمہ دار " یا "
سیاستدان" نظر نہیں آتے ۔ جہاں جھوٹ
کو " سیاسی بیان " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اور سیاست کے لفظ کو بدنام
کیا جاتا ہے ۔ سیاست کو سماج کا سب سے بہترین اور محترم پیشہ قرار دیا گیا ہے ۔
کیا یہ وہی سیاست ہے ؟ یہ سوال ایک عام سماج کے طالبعلم کے ذہن میں اٹھتا ہے
۔ وہ دیکھتا ہے ۔پارلیمنٹ
جسے ہم اپنی زبان میں مجلس شوری کہیں تو
اس ادارے کے خدو خال اور اس کے
اغراض و مقاصد زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ، وہاں قوم کے نمائندوں کی جگہ پارٹی کے نمائندے
آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر یا رہنما کی اصطلاح ایک ایسے شخص کی ہے
جو ان نمائندوں کے لیے نعوذ باللہ خدا کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس کے اچھے برے افعال
کی پردہ پوشی اور سینہ زوری کی حد تک دفاع
ان نمائیندوں کی ذمہ داری ہو ۔ جنہوں نے انہیں وہاں بھیجا ہے ، ان کے اغراض کہیں دور سڑکوں میں ایک پنڈال کے اوپر
ڈائس میں کھڑے شخص کے جھوٹے وعدوں کی شکل میں گونج بن کر رہ جاتے ہیں ۔ جس
گونج کو سینے سے لگائے ،افراد ان کے حق میں سڑکوں پر کئی دنوں تک اپنے کام
کاج چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ حلق سے محض
نعرے بلند ہوتے ہیں جس کا مقصد ان کے حقوق ، اور انصاف کی سربلندی ہی ہوتا ہے ۔
اور پھر ایک دن لمبی قطاروں کے صبر آزما لمحات ، جس میں سوا نیزے پر آئے سورج کی تپش ، دھول مٹی وغیرہ سے نبرد آزما ہو کر صرف ایک ووٹ دیتے ہیں ۔ جس ووٹ کو پانے کے لیے وہ ادارہ انسانیت سوز حالات تک سے
اپنی عوام کو نہیں نکال پائے ۔
بہر حال مجلس
شوری دراصل ملک کے بہترین اذہان کے مل بیٹھنے کا ادارہ ہے ۔ جنہیں عوام الناس
منتخب کرتے ہیں ۔ وہ دیکھتا ہے ، ملک کے
سب سے بہترین اذہان ، جھوٹ ، فریب ، مکاری
کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ اور ان سب کا مقصد اپنے ملک سے وفاداری بھی نہیں بلکہ
اپنی پارٹی سے وفاداری ہے ۔ وہاں ٹھیکوں پر بحث ہوتی ہے ۔ وہاں وزارتوں پر بحث
ہوتی ہے ۔ اس مجلس میں شوری کا عمل مفقود دیکھ کر اس کا دل بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کے
دماغ میں گونج ابھرتی ہے ۔ جمہوریت ہی ہماری بقا ہے ۔ ایک اور گونج ابھرتی ہے ،
جمہوریت بہترین اتنقام ہے ۔ وہ سوچتا ہے ۔ انتقام کس کے خلاف ؟
یوں صدی بیتتنے کو ہے اور قانون سازی کا عمل جمود کا شکار
ہے ۔ وہ منتخب نمائندے اپنے اپنے مفاد کے
لیے لڑتے رہیں گے ۔ ہر پانچ سال بعد ڈائس پر کھڑے ہو کر ہمیں چورن بیچیں گے ۔ اور
ہم ذوق و شوق سے وہ چورن چاٹ کر اسی جنون کے ساتھ انہیں واپس انہیں مسندوں پر
بٹھائیں گے ۔ جہاں بیٹھ کر ان کی
تمکنت ایک مرتبہ پھر قائم ہوجائے گی ۔ پھر
مفادات کی جنگ ہوگی ۔ انصاف کے ادارے ایک
جانب کھڑے ان کا چہرہ تکتے رہیں گے ۔ اور
انصاف کی بے بس صدائیں ہونہی ایوانوں سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہیں گی
۔
No comments:
Post a Comment