عصبیت کیوں ضروری
ہے ۔ ؟
شہیر شجاع
اخلاقیات
کے معیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلی دنیا میں کسی کے ہو ہی نہیں سکتے ان
کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ تابعین تبع تابعین وغیرہ وغیرہ ۔۔ ہم
کس کھیت کی مولی ہیں ؟
آج
دنیا کا ہر شخص ، جماعت ،کسی نہ کسی عصبیت کا حامل ہے ۔ جس عصبیت کے تحت اس کی خود
اعتمادی کا دارومدار ہے ۔ خواہ وہ قومی ہو ، لسانی ہو ، ذاتی ہو ، عہدہ ہو ، مذہب ہو ، مسلک ہو ، غرض بنا عصبیت کے تعلقات استوار
کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن ہر عمل معتدل ہونا
ضروری ہے ۔ اسی وجہ سے اس فکر سے کنارہ کرنا افضل ہے ۔ کیونکہ انسان اعتدال کرنے میں
سست ہے ۔
پاکستان
کی سرزمین پر نگاہ دوڑائیں ۔۔ سرسری ہی سہی ۔۔۔ کوئی سندھی ہے ، بلوچی ، پنجابی ، مہاجر
، پٹھان ، سرائیکی ، کشمیری ، وغیرہ وغیرہ ۔۔ ہر دوسرا شخص لسانی عصبیت کا شکار ہے
۔ ہر ایک لسانی عصبیت دوسری عصبیت کو برا سمجھتی
ہے ۔ ان کے بارے میں غلط رائے رکھتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے ۔ کہیں پنجابی پختون نفرت ہے تو کہیں مہاجر پختون ۔ کہیں مہاجر پنجابی
، کہیں سندھی مہاجر ، کہیں بلوچی پنجابی ۔ اخبارات میں سرائیکی پٹی کا رونا بھی ہم
پڑھتے رہتے ہیں ۔ یہ لسانی عصبیت پاکستانی باشندوں کی جڑوں میں نہایت اندر تک سرایت
کر چکی ہے ۔
ایک
امریکی ، یورپئین یا اسرئیلی کی نفسیات کا
مشاہدہ کریں تو اندازہ ہوگا ۔ اس کی عصبیت
اس کا مذہب ، اس کے وطن کی سیاسی پالیسی اور
وطنیت کا امتزاج ہے ۔ اور اس میں اس کی پختگی
کی وجہ سے وہ دیگر عصبیتوں کا دلی احترام کرنے کا مثبت جذبہ رکھتا ہے ۔ جبکہ ہم عدم برداشت میں اپنا ثانی
نہیں رکھتے ۔۔ کیونکہ ہماری کوئی عصبیت سرے سے ہے ہی نہیں ۔ بلکہ ہم تعصبات کا شکار
ایک ہجوم ہیں جس کے کوئی مقاصد نہیں ۔ محض نظریات ہیں ۔ اقوال ذریں ہیں ۔ اور ڈھیروں
مواعظ ہیں ۔ عملی طور پر ہم نفرتوں کو فروغ
دینے والا ایسا ہجوم ہیں جس کے آنکھ ، ناک ، کان ، عقل سب غیر کے تابع ہیں ۔
کوئی
نہ کوئی ایسی عصبیت تو ضرور ہے جس کا اتباع انسانوں کو جوڑنے ، باہمی محبت و احترام
کا باعث ہے ۔ اور یقینا ہے ۔
No comments:
Post a Comment