Thursday, January 15, 2015

کشمکش




اس کے حسین چہرے کے خدو خال ۔۔۔ عجیب سی کشمکس میں مبتلا محسوس ہو رہے تھے ۔۔ سر سے بال سرک کر جب ماتھے سے ہوتے ہوئے چہرے کو ڈھانپ لیتے تو وہ سر کو یوں جھٹکتی  کے آس پاس  کی فضا میں کوئی خؤشبو سی بکھر جاتی ۔۔۔ اور پھر سے وہ چہرہ پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگتا ۔۔۔۔ لیکن کسی کونے میں چھپی وہ کشمکس مجھے بے چین کیے دیتی تھی ۔۔ ۔۔ آخر تنگ آکر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا ۔۔۔ کوئی مسئلہ پریشانی ہو تو ۔۔۔ کیا میں کوئی مدد کر سکتا ہوں?

وہ ایک ادا سے مسکرائی ۔۔۔ اور کہا ۔۔ جی وہ میری گاڑی پنکچر ہوگئی ہے ۔۔۔ جیک گاڑی میں پڑا ہے ۔۔ ٹائر بدل دیں 
گے ؟؟؟؟؟

شہیر


Wednesday, January 14, 2015

حلق



محمد شہیر شجاع 

مجھ سے اب ہلا نہیں جا رہا ۔۔۔۔ مجھ میں طاقت  نہیں رہی ۔۔   
کل بہت سارے لوگ   بڑی بڑی گاڑیوں میں اچھے اچھے کپڑے پہن کر آئے تھے ۔۔۔  آپس میں بہت باتیں کر رہے تھے ۔۔ اور کوئی تصویریں بھی کھینچ رہا تھا ۔۔۔ ہاں بہت ساری تصویریں کھینچی گئیں ۔۔ اور جب مین نے بھی ایک تصویر میں شامل ہونے کی کوشش کی ۔۔ تو مجھے ایک زور کا دھکا پڑا تھا ۔۔ جس سے میرے گٹھنے چھل گئے تھے ۔۔ کافی دیر تک میں ٹھیک سے چل بھی نہیں پایا تھا ۔۔ 
بڑی بڑی مشینیں لائی گئی تھیں ۔۔  انہیں دیکھنے کے لیے  میں کبھی کنویں کی منڈیر پر چڑھ جاتا کبھی درخت پر چڑھ جاتا تھا ۔۔   وہ لوگ بہت دیر تک رہے تھے  ۔۔۔ بہت شور تھا گاوں میں ۔۔۔ لوگ کہہ رہے تھے ہمارے گاوں میں بجلی آئے گی ۔۔۔  لیکن مجھے تو پیاس لگی تھی ماں ۔۔۔ کتنے دن ہوئے روٹی کا ٹکڑا بھی نہیں ملا تھا ۔۔ ۔ پھر ایک ایک کر کے سب چلے گئے ۔۔ ۔۔ پانی کی تلاش  میں  میں ان کی گاڑی کے پیچھے کتنی دور تک بھاگا تھا ۔۔۔ لیکن وہ  چلے گئے ۔۔  
 ماں کہتی ہے ۔۔ یہ بہت بڑے لوگ ہوتے ہیں ۔۔۔ ان کے پاس بہت پیسہ ہوتا ہے ۔۔ وہ جو چاہے خرید سکتے ہیں ۔۔ تو کیا انہوں نے ساری روٹیاں سارا پانی خرید لیا تھا  ماں ؟ جو اب ہمارے لیے نہیں بچا ۔۔ 
ماں دیکھو میرے پاس دو روپے ہیں ۔۔  یہ بہت دنوں سے چھپا کر رکھے تھے ۔۔  ان سے روٹی نہیں ملتی کیا ماں ؟ ۔۔ 

اوراس نے میرے سر پر کتنے پیار سے ہاتھ پھیرا تھا اور مسکرا دی تھی ۔۔ لیکن مجھے کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔۔۔   ماں نہ جانے مجھے کہاں سے گھسیٹتی ہوئی لائی تھی ۔۔۔۔ مجھے اپنی پیٹھ پر جلن محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔ 

میرا سر  ماں کے بازووں  میں بھینچا ہوا تھا ۔۔ اور وہ خود ایک طرف کو ڈھلکی پڑی تھی ۔۔  اس کے ہونٹ سفید تھے ۔۔  ماں ماں ۔۔۔ ماں ۔۔ میں نے زور زور سے اس کو آواز دینی چاہی ۔۔ لیکن میری آواز حلق میں ہی پھنس کر رہ گئی ۔۔ میں نے اپنے بازو وں کو حرکت دینے کی کوشش  کی ۔۔ وہ بھی بے سود رہی ۔۔۔ میرے ناک کان میں مکھیاں اور چیونٹیاں آنی شروع ہوگئی تھیں ۔۔  اور میری آواز حلق میں پھنسی ہوئی تھی ۔

Monday, January 12, 2015

رانگ نمبر


شہیر شجاع
جب پیرس میں اخباری دفتر میں تشدد کی واردات ہوئی تو ہر طرف سے اس کی مذمت میں بیانات آئے ۔۔۔۔  بیشک مذمت ہونی بھی چاہیے ۔۔۔ لیکن سب سے اہم بیان ترکی صدر کا تھا " ہم اس تشدد کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس کی وجوہات کو بھی ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے " ۔۔۔  انہوں نے ایسا کیوں کہا ؟ ۔۔ کیونکہ ان میں اب بھی غیرت باقی ہے ۔۔۔ جب اس جریدے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے گستاخانہ خاکے چھاپے تو ۔۔۔ مسلمان اس معاملے کو حل کرنے کے لیے عدالت گئے ۔۔ جہاں ۔۔۔ انہیں آزادئ اظہار میں رکاوٹ کا طعنہ دے کر دفع کر دیا گیا ۔۔۔ اس کے بعد اس جریدے کے ایڈیٹر کو مزید شہہ مل گئی ۔۔ اور وہ مسلسل اس کام میں لگ گیا ۔۔۔ جبکہ مسلمان مسلسل قانونی چارہ جوئی میں مصروف رہے  ۔۔ لیکن عدالت ، حکومت نے ان کی ایک نہ سنی ۔۔۔۔ آخر کار کہیں کسی نے تو تشدد کا راستہ اختیار کرنا تھا...
مذہبی تعصب تو وہاں بھی عیاں تھا ۔۔ پھر کسی کو کیوں نظر نہ آیا ؟ ۔۔۔  ...
آج پاکستان میں سانحہ پشاور کے دردناک سانحے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ مذہب کے خلاف " مذہبی ٹھیکیدار" کا سہارا لے کر ۔۔۔ مذہب کی حیثیت کو ہی ختم کرنے کی جو کوششیں شروع ہوئی ہیں ۔۔۔ کیا وہ کسی بھی منطق سے درست نظر آتی ہیں ؟ ۔۔۔۔  دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے ۔۔۔  اسے مذہب سے جوڑ کر دہشت گردوں کو  کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے ۔۔۔  ہم سیکولر ہیں نا لبرل ۔۔ ہم مذہبی اقدار کی حامل  قوم ہیں ۔۔۔ ویسے تو ہم ۔۔ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے ہیں ۔۔۔ لے دے کر جو بچا رہ گیا ہے ۔۔۔ اسے بھی نابود کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔ خؤد ہی کھڑے ہوگئے ہیں ۔۔۔
جب دنیا میں جہالت تھی ۔۔۔ انسانیت نا پید تھی ۔۔۔ لڑکی کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔۔ بات بات پر انسان کی جان لے لی جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انسانیت کا درس لے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام آیا تھا ۔۔ جس نے انسان کو جینے کا سلیقہ سکھایا ۔۔۔ رہن سہن کے آداب بتائے ۔۔ میل جول کے اطوار پہنائے...
پاکستان کے نظام میں عدل نام کی کوئی چیز جب ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالہا سال سے برپا دہشت گردی ۔۔ خون ریزی  ۔۔ پر ملزمان کی شناخت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آج مذہب پر اتنا بڑا وار کیوں ؟ ۔۔۔  بیشک ۔۔ مذہب کی آڑ میں ۔۔۔۔ بہت سا فساد برپا ہے ۔۔۔۔  نظام کو شفاف بنائیں ۔۔۔ ان فسادیوں کو بے نقاب کریں ۔۔۔۔۔ لیکن اس طرح سے اپنی ہی جڑوں کو  کمزور کرنا کسی بھی طریقے سے  کیسے درست ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ ۔  آج جہاں دیکھو ۔۔ شور بپا  ہے ۔۔۔۔ داڑھی  ، ٹوپی والے دہشت گرد ہیں ۔۔ ان میں اخلاق و تہذیب نہیں ۔۔۔ انہیں جیسے صرف یہ سکھایا جاتا ہے کہ  جیکٹ پہنو اور خود کو اڑا دو ۔۔ جنت ملے گی حوریں ملیں گی ۔۔۔۔۔۔۔  کیسی غلیظ سوچ کو پروان چڑھایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔  پاکستان ایک ایسی سر زمین ہو گئی ہے ۔۔ جہاں من چاہا  کچھ بھی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ہمیں کسی بھی رخ پر ہنکا کر لے جایا جا سکتا ہے ۔۔۔ ہمیں  کالے کو گورا اور گورے کو کالا دکھا کر یقین بھی دلایا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔  ہم کتنے  بے حس ہو چکے ہیں ۔۔۔ ہمیں علم ہی نہیں ۔۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں  ؟ 

Saturday, January 10, 2015

غش



بنت حوا کی لاش زمین پرنیم برہنہ حالت میں زمین پر آڑھی ترچھی پڑی تھی ۔۔۔ اس کا جسم اس کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر چیخ چیخ کر پکار رہا تھا۔۔۔  لوگ چہ مگوئیاں کر رہے تھے ۔۔ ایک بولا ۔ اللہ غارت کرے ظالموں کو ۔۔ حکمرانوں کو 
ایک اور آواز ابھری ۔ ۔۔یہ ہمارے ملک کو کیا ہوگیا ہے ۔۔ ہم اس قدر پستی کی جانب گرتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔
جتنے منہ اتنی باتیں ۔۔ اتنے میں ۔ ایک صحافی ابن آدم آگے بڑھا ۔
 اپنی نیم برہنہ لٹی پھٹی بہن کی لاش  کی تصویر کھینچی ۔۔ اور کہا کہ میں ساری دنیا کو دکھاونگا کہ ہمارے ملک میں یہ کیا ہورہا ہے ۔۔ تاکہ ذمہ داروں کے خلاف کروائی ہو اور ایسے واقعات کی روک تھام ہو۔۔۔
ایک ادیب اگے بڑھا ۔۔ اس نے کہا ۔۔ میں اس واقعے کو ایک ایک آدمی تک پہنچاوں گا ۔۔ تاکہ لوگوں کو آگاہی ہو۔
ایک سیاست دان آگے بڑھا ۔۔ اس نے کہا ۔۔ ہم احتجاج کریں گے ۔ یہاں تک کہ انصاف ملے۔۔
بنت حوا کی ماں ایک طرف بیٹھی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔۔ آس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ وہ آگے بڑھی ۔۔  پولیس نے روکنے کی کوشش کی کہ لاش  کی ابتدائی تحقیقات ہونے تک آپ لاش کو نہیں چھو سکتیں۔۔۔۔۔
ارے کمبخت وہ میری بیٹی ہے ۔ لاش نہیں ۔۔  مجھے کوئی انصاف نہیں چاہیے ۔۔۔  وہ رو رہی تھی ۔۔چیخ رہی تھی۔
اپنے سر سے چادر اتاری ۔۔ اور پولیس والے کی طرف پھینک کر چلائی کہ کم از کم میری بیٹی کو اس سے ڈھانپ دو ۔۔   اور غش کھا کر گر پڑی۔۔

Tuesday, January 6, 2015

ایل مشغرب

محمد شہیر شجاع


مولوی کا لفظ جب ان کے سامنے سے گزرتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ تخیل میں ایک ایسی کریہہ تصویر سامنے آجاتی ہے جن کی نس نس میں درندگی ، حیوانیت ، جنسی تشدد ، بھری پڑی ہوں ۔۔۔ جو سانس بھی لیتے ہوں تو ۔۔۔ اس میں بدبو آتی ہو ۔۔ جو انسانیت کی شکل میں درندے ہیں ۔۔۔ جو معاشرے میں ۔۔۔۔ اللہ اور رسول کا نام  لیکر معاشرے کا ناسور بنے ہوئے ہیں ۔۔ جن کے ذہن پر خون اور کندھے پر بارودی جیکٹ چڑھی ہے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ..
برائی کس معاشرے میں نہیں ہے ؟ ہر معاشرہ فی زمانہ برائی کا پٹارہ ہے ۔۔۔ لیکن ہم جب اسلامی معاشرے کی بات کرتے ہیں تو اس میں کلیدی کردار کس کا ہوتا ہے ؟َ اس کا اب تک کوئی تعین نہیں ہوا ۔۔۔۔۔
ایک اور آواز گونجتی ہے ۔۔ مشرقی تہذیب ۔۔۔۔
جس تہذیب کو اپنے ہی ہاتھوں منوں مٹی تلے خود ہی دباتے جا رہے ہیں ۔
 .پھر یہ مولوی ۔۔۔ کی غلاظت کہاں سے در آئی?
کہتے ہیں اس میں جنسی درندگی ہے جو ۔۔۔۔ کلیوں کی نشونما ہونے سے پہلے ہی اس کے ذہن میں غلاظت بھر دیتا ہے ۔۔ وغیرہ وغیرہ..
 مدارس ۔۔ جہاں مخلوط تعلیمی نظام کا دستور نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ جہاں کی طالبہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لینا ۔۔ اس طالبہ کو پریشان کر دیتا ہے ۔۔۔۔ اور طالبعلم جو صبح سے شام تک سوائے اللہ اور رسول کے اور کچھ نہیں سیکھتا ۔۔۔۔ کھانے میں ۔۔۔۔ سوکھی روٹی ۔۔۔ اور پانی والی دال کھاتا ہے ۔۔۔۔ ان میں بہت سے اسیے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔ جو اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ پاتے ۔۔۔۔ اور ان گناہوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔۔ جو معاشرے کا سب سے بد ترین  "فعل" ہے ۔
ٹھیک اسی طرح جس طرح کالج یونیورسٹیز میں ۔۔۔ بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کا دستور ہے ۔۔۔ جہاں زنا بالجبر بھی ہوتا ہے ۔۔ اور زنا کو محبت کا نام بھی دیا جاتا ہے..
 جب مدرسے کا طالبعلم فراغت پانے کے بعد ۔۔۔ روزی روٹی کی فکر میں آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو کہیں بھی نہیں پاتا ۔۔۔ کیونکہ اس کے لیے مدارس نے کبھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ آخر کار ۔۔ کسی مسجد میں پیش امام ہو جاتا ہے ۔۔۔ آپ کے ہی گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور آپ کے بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم بہم پہنچاتا ہے
 
دنیاوی ہر آسائش سے دور ۔۔۔۔ صبح و شام کرتا ہے ۔۔۔ زندگی گزارتا ہے ۔۔۔۔ خوش رہتا ہے ۔۔۔ خؤش اخلاق ہوتا ہے ۔۔۔ جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں ۔۔۔ وہ کوئی تجارت کر لیتے ہیں ۔۔۔۔ اور جو کچھ زیادہ ہی صاحب حیثیت ہوتے ہیں وہ اپنا مدرسہ بنا لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج پاکستان کی گلی گلی میں اسکول نما فیکٹریاں لگی ہیں..
میڈیکل میں ۔۔۔ بیماریوں سے بچاو کی ترکیبیں بتائی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک اسی طرح مدارس میں ۔۔۔ اپنے نفس و ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے ان عناصر کا بتایا جاتا ہے جو مضر ایمان و نفس ہیں ۔۔۔۔
  یہ ایک ایسا نقطہ ہے ۔۔۔۔ جہاں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ کیونکہ اس نقطے پر آکر ۔۔۔۔ کم علمی و کم فہمی معاشرے کی تباہی کا باعث بننے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ،،،،۔۔۔۔۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سے ۔۔۔۔ ہمارا 

میڈیاایک سطر چھوڑ دے اور ہلچل مچ جائے
جب تک مولوی ماسٹر کی تفریق کو ۔۔۔۔۔۔ ختم کر کے ۔۔۔ ایک نظر سے نہین دیکھا جائے گا
۔۔۔۔۔۔ یہ طبقہ دو حصوں میں ہمیشہ بٹا رہے گا ۔۔۔۔  لائم لائٹ میں ۔۔۔ مولوی کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔۔۔ جب کہ دوسرے طبقے کا علمی ذریعہ لائم لائٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یا تو دونوں کو برابر حصہ داری دی جانی چاہیے ۔۔۔۔۔۔ یا پھر مولوی کو خود اس آنچ کو مکمل آگ کی صورت میں بھڑکنے سے پہلے ہی ۔۔۔۔۔۔ سامنے آکر ہر ہر سطح پر اپنے آپ پیش کرنا چاہیے ۔۔۔اپنے مدارس کے نظام میں نظر ثانی کرنی چاہیے ۔۔۔ کہ ہر سال ۔۔۔۔۔۔ لاکھوں طلباء سند لے کر باہر معاشرے کا حصہ بنتے ہیں ۔۔۔۔۔ آخر ان کا مستقبل کیا ہے ؟ 

Monday, January 5, 2015

مسجد و مدرسہ اور ہماری ریاست


کستان میں ایک مدرسے میں سفاکیت کی انتہا ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب جگہ جگہ اس کے پوسٹر کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدارس کو ایک ایسی جگہ ثابت کیا جا رہا ہے جہاں ۔۔۔ انسانیت نہیں حیوانیت سکھائی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سے ایک کرسچین جوڑے کو آگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا تھا اور انسانیت تماشائی بنی دیکھتی رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ ناک اور کان کی حس سے محروم ہونے کا ثبوت پیش کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کونسی عقل ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ہر جگہ ریاست کو کھلا چھوڑ دیں ۔۔۔۔ ریاست کی ذمہ داریوں پر کوئی الزام نہ دیں ۔۔۔۔ بلکہ ان عناصر کو دوش دیں آئندہ کوئی ایسا کچھ سوچنے سے پہلے ہی تھرا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں قانون کا نام و نشان نہ ہو ۔۔۔ وہاں کیا مدرسہ کیا کالج ۔۔ کیا یونیورسٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے ۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ جایا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو مجھے صرف اس بنا پر چھوڑنا پڑا کہ وہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم کم اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنظمیی جھگڑا زیادہ تھا ۔۔۔ دونوں اسلحے کے زور پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنےساتھ شامل کرنا چاہتے تھے ۔۔۔۔ مرو یا ماردو ۔۔۔ کی دھمکیاں ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو مدرسے کی آب و ہوا سے ناواقف ہوں انہیں صرف ٹیلیویژن میں بیٹھے ۔۔۔۔ پروپیگنڈا مشینری سے متعلق شہرت کے دلدادہ افراد کی باتوں کو سن کر ۔۔۔ اپنا ذہن نہیں بنانا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود جائیں مدارس کے طلباء کا حال تو دیکھیں ۔۔

Thursday, January 1, 2015

نیا سال مبارک ؟ ؟؟؟




نیا سال مبارک ؟ ؟؟؟
شہیر شجاع
----------------------------------
یوں تو سال دو ہزار چودہ اور اس سے پچھلے گزرے سال تقریبا یکساں تھے سوائے اس کے کہ عمر آگے بڑھتی رہی ۔۔ زندگی کے تجربات سیکھ دیتے رہے ۔۔۔ نئے لوگ ملتے رہے ۔۔۔ ہم ان سے تعلیم لیتے رہے ۔۔۔ لیکن گزرے سال کی دو بہت ہی اہم باتیں جو مجھے آنے والے سال کے لیے ایک مقصد اور اس میں عمل پیرا ہونے کا جذبہ ، غصہ اور لگن پیدا کرتی ہیں ۔۔۔ ایک تو عمران خان کا دھرنا تھا ۔۔۔ وہ درست تھا یا غلط وہ الگ موضؤع ہے ۔۔۔ لیکن اس شخص کے عزم و حوصلے نے مجھے ایک نئی جاہ سے روشناس کرایا ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد ۔۔ سولہ دسمبر کا دلدوز واقعہ ۔۔۔۔۔ جس نے مجھے لرزا کر رکھ دیا ۔۔۔۔ بہت سے راز افشا ہوئے ۔۔۔ بہت سی دھندلی تصویریں واضح ہوئیں ۔۔ دل نے ایک عجب سی انگڑائی لی ۔۔۔ ایک رخ جو واضح نہیں تھا ۔۔۔ اس کا تعین ہوا ۔۔۔ اور اب بس اس پر عمل پیرا ہوا ہی چاہتا ہے ۔۔۔ 
گر رب نے زندگی کے مزید سال لکھ رکھے ہیں ۔۔۔ تو ان شاء اللہ ۔۔۔ میرا عہد ہے اپنے آپ سے ۔۔۔ کہ اب روایتوں کو توڑنا ہے ۔۔۔۔۔ آگے بڑھنا ہے ۔۔۔۔ جن روایتوں کی بیڑیاں ہم نے اپنے پیروں پر ڈال رکھی ہیں ان سے اب آزادی حاصل کرنی ہے ۔۔۔ ایک نئی جدو جہد کا آغاز کرنا ہے ۔۔۔ اس روایت زدہ معاشرے میں ۔۔۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا ہے ۔۔۔ اگر یہ سوچ باغی ہے ۔۔ تو اس باغیانہ سوچ کے حامل افراد کو ساتھ ملانا ہے ۔۔۔۔ سرزمین پاکستان کے ہم نوجوان ہیں ۔۔۔۔ کیا واقعی ہم قائد کے سلجھے ہوئے معمار ہیں ؟ ۔۔ کیا واقعی ہماری تربیت ہوئی ہے ؟ کیا ہمیں اس قابل ہونے دیا گیا ہے کہ ہم اس دھرتی کو سنواریں ، نکھاریں سجائیں اور اس کے ماتھے پر محبت و اخوت کی مالا پہنائیں ؟ ۔۔۔۔۔۔
یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں ۔۔۔۔ جن کے جوابات میں نے اپنے آپ سے لینے ہیں ۔۔۔۔ اس معاشرے میں ایک کردار ادا کرنا ہے ۔۔۔۔ جس سعی کی خاطر بہت سے بے نشاں ۔۔ بے آبرو ہوئے ۔۔۔۔ اب اپنی آبرو کو بھی داو میں لگانا ہے ۔۔۔۔ جلد بازی سے دور اور فہمی بصیرت کو جگانا ہے ۔۔۔۔۔ 
بس اب روایتوں کو توڑنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانا ہے ۔۔۔ اس دھرتی کی طرف بڑھتے ہوئے ناپاک قدموں کو ۔۔۔۔ نامراد بنانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رستے میں آئےہوئے گھڑوں کو ہم پھلانگ کر آگے گزر جاتے ہیں ۔۔۔ اب ان گھڑوں میں مٹی ڈال کر راہ ہموار کرنی ہے ۔۔۔۔ ان شاء اللہ ۔۔۔ 
اور جو عزم و حوصلے کے ساتھ عمل کے میدان میں آگے بڑھنے کو تیار ہے ۔۔۔ انہیں نیا سال مبارک ۔۔۔ اس کی برکتیں مبارک ۔۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...