Wednesday, April 16, 2014

احساسات کی مار



محمد شہیر شجاع

جب دنیا میں محبت ، یگانگت تھی بھائی چارہ رتھا  ،تو اتحاد بھی تھا ۔ خوشحالی کے ساتھ ساتھ خوشیاں بھی تھیں ۔  اطمینان تھا ،   سکون تھا ، رعب و دبدبہ تھا ۔ فخر تھا ، عزت تھی   ۔ علم کے ابواب  ہم ہی سے کھلتے تھے   ، اور ساری دنیا سیراب ہونے کو ترستی تھی ۔   ہم فاتح تھے تو مفتوح  ہماری تہذیب کے گن گاتے تھے ۔   ہم مفتوح ہوئے تو پھر کسی ماں نے  ایوبی و سلطان جنا ،، سوری ، و قاسم و غوری و ابدالی  جنا ۔ امام الہند  و شیخ الہند  سے مدنی و عثمانی ۔۔۔۔۔۔۔  اقبال و جناح ،،، و مودودی  ۔۔۔۔۔  پیدا ہوئے ۔

 اب تک دنیا میں محبت قائم تھی  ۔

عورت  کی عظمت تھی مرد کا دبدہ تھا ، بزرگ  کا احترام تھا  تو علم کی  توقیر  تھی ۔ استاد ہونا پیشہ نہیں ذمہ  داری تھی ، طالب علم ہونا شوق تھا ، شوق بھی ایسا جیسے فرض ہو ۔ اقدار  کی قدر رگ و پے میں بسی تھی  ۔

پھر ایک دور آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ماں ہونا عورت کے لیے سبکی قرار پایا  ،۔  اس  کی چار دیواری اسے جیل ، اولاد اسے مرد کی خواہش محسوس ہونے لگی  ۔ اس نے آزادی کا نعرہ لگایا ۔معاشرے نے اس معصوم  کو روکنا چاہا لیکن اس مرتبہ معاملہ شدید تھا ۔ وہ نہ رکی ۔۔ اسے آزادی ملی ۔
محبت  کی  پیاس شدید ہوگئی ۔ نہ جانے اب کون سی محبت درکار تھی ۔  امن  و شانتی نے اپنے آپ کو مسدود کرنا شروع کر دیا ۔ انسان  کی جان سے زیادہ قیمتی ،  جذبات قرار پائے ۔  ام طارق ، و ام محمد کی جگہ لیلی ، و جولیٹ نے لے لی ،۔
۔۔

   جب مائیں نہ رہیں تو غوری کون سا فرشتہ تھا  ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...