Wednesday, April 23, 2014

سانپ

افسانچہ
سانپ 
محمد شہیر شجاع

امی ی ی ی  ۔۔۔۔۔  چھپکلی ۔۔۔۔ آسیہ  کچن میں داخل ہوتے ہی زور سے چیخ پڑی ۔
ارےچھپکلی ہی تو ہے ۔ تجھے کاٹنے کو تھوڑی نا آرہی ہے ۔۔  اماں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ہمت بندھانے کی ناکام کوشش کی ۔
نہیں امی ۔۔ پہلے اسے بھگائیں ۔۔ پھر میں کچھ کام کاج کرنے کے قابل ہوسکونگی ۔
آسیہ کا خوف حشرات سے کچھ شدید ہی تھا ۔ کبھی  لال بیگ دیکھ کر  دوڑ جاتی ۔ کبھی  چھپکلی تو  کبھی کچھ  ۔
سمندر  میں اٹھکھیلیاں کرتے  ایک  تیرتےسمندری پودے کو سانپ سمجھ کر  اس نے جو وبال کھڑا کیا تھا ۔ اف خدا کی پناہ ز
اماں نے کچن کو آسیہ  کے قابل کر دیا اور اپنےکام میں جت گئیں ۔
آسیہ کی آنکھوں کے سامنے  مناظر  فلم کی طرح ایک کے بعد ایک  ۔۔۔ چلتے جا رہے تھے ۔۔۔   اس کا تو ویسے ہی خوف کے مارے برا حال تھا۔   وہ تو ایک ننھے سے  کیڑے " لال بیگ " کی وجہ سے بھی راستہ بدل لیا کرتی تھی ۔۔
آج اس کے سفید زعفران سے معطر لباس   میں  لپٹا لمبا سیاہ ناگ پھن پھیلائے اسے تک رہا تھا ۔ جسے پہنانے سے پہلے اس کے  عزیز و اقارب نے اسےغسل دیا تھا اور بہت ہی کرب و بکا کے ساتھ یہاں چھوڑ گئے تھے  ۔۔۔ وہ آوازیں دیتی  ، چیختی چلاتی  ۔ لیکن  اس   اندھری کوٹھری میں  آواز حلق میں دب کر رہ جاتی۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...