Sunday, April 13, 2014

جدت پسند



محمد شہیر شجاعت
10/04/2014
گاوں کی گلیاں بچوں کے شور سے گونج اٹھیں ، جیسے ہندوستاں  ۱۹۴۷ سے  بھی پیچھے چلا گیا ہو ۔ اظہر نے ذرا غور کیا تو اسے علم ہوا کہ بچے  گاوں میں بجلی کی آمد پر خوشیاں منا رہے ہیں۔
اظہر  شہر کا رہنے والا ایک اعلی تعلیم یافتہ اور باشعور  نوجوان تھا جسے گاوں گاوں تعلیم عام کرنے کے شوق نے یہاں تک پہنچا یا اور تقریباّ دو سال سے ایک  پیپل کے پیڑ کے نیچے تختہ لگائے  نوجوانوں  میں شعور بیدار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا ۔۔ ساتھ ساتھ گھر گھر جا کر گلی ،محلوں ، چوراہوں میں کھڑے ہو کر بچوں سے لیکر  بڑے بوڑھوں  میں تہذیب و تمدن  سے آگاہی اور تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کی  جستجو بھی جاری تھی  ۔ اب تک اسے خاصی کامیابی بھی ہوئی تھی ۔ اگر نیت صاف ہو ۔ اور ارادے نیک ہوں تو منزل آسان ہوتی جاتی ہے ۔ لیکن ہر بڑے مقصدکی کامیابی کے لیے  ہمت و طاقت کا امتحان بھی ہوتا ہے ۔۔
اس کے پاس چونکہ وسائل نہیں تھے اس لئے  وہ سہولیات دینے سے عاجز تھا جو ان کو ملنی چاہیے تھیں ۔جبکہ سلیم کے بابا مکھیا تھے کئی ایکڑ زمین کے مالک بھی ، سو  وہ اظہر کی نسبت قدرے بہتر حالت میں تھا ۔
حال ہی میں  ولایت سے  تعلیم مکمل کر کے آیا تھا  ۔۔۔ خدا ترس بندہ تھا ،ا س نے اپنے  آبائی گھر میں ہی  رہنے کا فیصلہ کیا اس سوچ کے ساتھ کہ وہ اپنے لوگوں میں شعور بیدار کرے گا جس سے وہ  جدید ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ ہو سکیں اور  خود بھی شانہ بشانہ اس کا حصہ بنیں ۔   
اس نے اظہر کا کافی سن رکھا تھا ، درخواست کی کہ کیوں نہ  وہ بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائے ؟
یہ دونوں جب بھی یکجا ہوتے ان میں ساتھ کام کرنے کی بات ہوتی لیکن شاید دونوں کی سوچ میں  واضح فرق تھا جس کی وجہ سے ان میں ہمیشہ ایک خلا سا رہا  ۔ اظہر اپنی جگہ اپنا کام کرتا رہا ۔ جبکہ سلیم پہ درپہ کامیابیاں حاصل کرتا گیا ۔
سلیم نے جب ایک بڑے اسکول کے قیام کا فیصلہ کیا تو اظہر سلیم  کے پاس آیا ۔
سلیم صاحب ۔۔ ماشاءاللہ آپ بہت ہی اچھا کام کرنے جا رہے ہیں ۔  جب ارادہ نیک ہی ہے تو کیوں نہ اس اسکول کی ذمہ داری مجھے سونپ دیں ؟ جبکہ میں عرصے سے اسی مقصد سے یہاں مقیم ہوں اور تمام گاوں والے جانتے بھی ہیں ، ان شاءاللہ  اس اسکول کو ہم سب مل کر یہاں کی ترقی  میں ایک اہم سنگ میل ثابت کریں گے ۔۔ اظہر نے  اپنی خواہش ظاہر کی ۔
اظہر صاحب ۔ آپ   کی خواہش کا بے حد احترام ہے لیکن  ۔۔۔۔ میں ایک " این، جی ، او" سے پہلے ہی بات کر چکا ہوں، لہذا اسکول کی تمام ذمہ داری انہیں کو سونپ چکا ہوں ۔ ۔۔ میرا خیال ہے کہ آپ بھی ایک  استاد کی حیثیت سے اس اسکول  میں ملازمت پیشہ ہو جائیں ۔کہاں دوڑ دھوپ میں اپنی چمڑی جلا رہے ہیں ۔ سلیم نے  بھی  بہت محبت سے  اسکو اپنے   نظریےسے آگاہ کیا ۔
کسی  "این۔ جی ۔او" کی مدد لینے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہم دونوں مل کر بھی اس اسکول کو آگے بڑھا سکتے ہیں ۔  ہم اپنا نصاب تعلیم بنائیں گے ۔ جس میں ہماری اپنی قدروں کی روشنی ہوگی ۔ جس میں ہماری آنے والی نسلوں کو ہم نے ان راستوں سے روشناس کرانا ہوگا جن راستوں میں چل کر ہمارے آباو اجداد و اسلاف نے کامیابیاں حاصل کیں ۔۔ اور ان راستوں  کے بارے میں خبردار کرنا ہوگا جو ہماری تباہی کا باعث بنتی رہیں  ۔  اس نے ایک لمبی سانس لی
سلیم صاحب  آپ تو جانتے ہی ہیں، یہ " این، جی ، اوز" ترقی یافتہ ممالک  کی پروردہ ہیں ، یہ ایک قسم کی مشنری تنظیمیں ہوتی ہیں ،  ان لوگوں کے لیے یہ پسماندہ گاوں کے سادہ لوح باشندے  نہایت ہی آسان ہدف ہوسکتے ہیں ۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ جب بھی عقل سے ماورا کچھ  دیکھتا ہے تو اکثر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے ۔تحقیقی و اختراعی  سوچ کے ساتھ ساتھ اپنے  ایمان و اقدار  سے محبت اور ان کا مان رکھنے والے انسان  ہی زندگی کے اسرار و رموز کی پرکھ کے قابل ہو سکتے ہیں ۔۔ ورنہ  انسان ہمیشہ کہیں نہ کہیں ہر اس شے سے متاثر رہتا ہے جو اس کی سمجھ میں  جدیدہوتی ہے ۔ ورنہ وہ کیا ہے جو انسان کے بس سے باہر ہے ؟۔ انسان نے چاہے جتنی بھی ترقی کرلی ہو ، وہ انسان ہی ہے ، جس کا دل و دماغ وہی کروڑوں سال پرانا ہی ہے ، اس کی صلاحیتوں میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی ۔ سوائے اس کے کہ  وقت کے ساتھ ساتھ اس نے نت نئے اسرار سے پردہ چاک کیا ، اس کے باوجود  نفرت و محبت ، حکمرانی و رعیت میں اب بھی  وہی سوچ کارفرما ہے  جو کہ انسان کا شروع سے ہی وطیرہ رہا ہے۔ اظہر نے سلیم کو  اس فیصلے  سے باز رہنے  کے لیے لمبی ساری تقریر کر ڈالی ۔اسکا  لہجہ ذرا سا تلخ بھی ہوگیا تھا ۔
آپ کی بات درست ہے ، لیکن آپ اْس دنیا کو اس طرح سے نظر انداز نہیں کرسکتے ، ہمارے پاس مسائل ہیں وسائل نہیں ہیں ۔ اگر ہمیں ان سے مدد مل رہی ہے تو ، حاصل کرلینے میں کیا ہرج ہے ۔ اور اس طرح سے کسی پر شک کرنا اور الزام تراشی کرنا درست بھی نہیں ہے ۔ آخر یہ لوگ ہمیشہ سے انسانیت کے لیے پیش پیش رہے ہیں ۔ان کے وسائل سے استفادہ کرنا جبکہ علوم اس وقت انہیں کے زیر نگیں ہوں، تو مستفید ہونے میں کیا برائی ہے ؟ سلیم نے بھی دفاع کی کوشش کی۔
جنگ عظیم بھی انہی انسانیت دوستوں کے ہاتھوں عمل پذیر ہوئی تھی میرے دوست ۔اور یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں ہے۔  بہر حال میرا پھر بھی اصرار ہے کہ اپنے بازو پہ یقین کرنا زیادہ بہتر ہوگا ۔ اب آپ کی مرضی ہے ۔ میں اپنے تئیں کوششیں جاری رکھونگا۔ اظہر نے ناختم ہونے والی تکرار کو لپیٹ دیا اور چلتا بنا۔
گاوں والے پتھر کے زمانے میں بس رہے تھے جیسے۔۔ بہت خوش باش تھے ۔ ملنسار تھے ، رشتے ناطے تھے ۔ آپس میں میل جول تھا ، بھائی چارہ تھا ، قناعت و آسودہ حالی ہر طرح سے جینا جانتے تھے۔
 سلیم نے بجلی فراہم کروائی ، اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے ذریعے استعمال ہونے والی اشیاء متعارف کروانا شروع کی،   اس نے مختلف  انڈسٹریز کا افتتاح کیا۔ان میں روزگار کی تقسیم ہوئی ۔  وہ انہیں  خوش دیکھ کر بہت ہی  راحت محسوس کرتا   اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتا کہ اس نے اسے اس قابل بنایا کہ وہ اپنے گاوں کو جدت سے آگاہ کر سکے ۔انہیں زندگی کی سہولیات فراہم کر پائے ، آسائشیں بہم پہنچا سکے ۔
کارواں چلتا رہا ۔۔ ایک کے بعد کئی اسکول کالجز کا قیام عمل میں آیا  ۔ ۔۔ نوجوان ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے لگے ۔ شعوری سطح  بلند ہونے لگی ، بلوغت اپنا اثر دکھانے لگی ۔ تمدن نے خوب پر پھیلائے ۔ 
جبکہ دوسری طرف اظہر  نے صرف اتنی ہی ترقی کی کہ اس نے درخت کے ساتھ چھپرا ڈال لیا ۔  طلباء اب بھی دریوں میں بیٹھے درس لے رہے ہوتے ۔   اس نے اب بھی چوراہوں میں کھڑے ہو کر درس دینا نہیں چھوڑا تھا ۔  
یار کیوں  اپنی جان کے پیچھے پڑے ہو ۔ دیکھو ہمارے بچے کیسے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ان شاءاللہ بہت جلد ہم جامعہ کا بھی سنگ بنیاد ڈالنے والے ہیں ۔ تم خوامخواہ  ان بچوں کے  مستقبل  کو برباد کر رہے ہو ۔ ان کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے ، آخر کیوں ؟ سلیم نے اظہر  کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا
تمہیں کیا لگتا ہے ، میرے ساتھ جو طلباء ہیں ، وہ جاہل ہیں ؟ یا انہیں میں علم کی دولت سے روشناس ہونے اور ترقی کرنے سے روک رہا ہوں ؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں ۔  تم نے ان کے والدین کو روزگار مہیا کیا ۔ اور پھر ان اسکولوں کے ذریعے ان سے بھاری فیسیں وصول بھی کر رہے ہو ۔ جبکہ میرا معامہ الٹ ہے ۔ میں مفت تعلیم دیتا ہوں ۔ بنا سرکاری  امداد لیے ۔ ان کے غریب والدین بہت سے تو ایسے ہیں جو تمہاری  مہیا کی ہوئی اچھی نوکریوں میں ملازم پیشہ ہیں لیکن اپنی اولاد کو میرے ہی زیر تربیت رکھنا چاہتے ہیں ۔ اور بہت سے طلباء کے والدین وہ ہیں جو کہ مجبور ہیں کہ وہ تمہارے اداروں کی فیسیں نہیں ادا کر سکتے ۔ اس کے علاوہ وہ طلباء بھی ہیں جو اپنے بھائی بہنوں میں سب سے نالائق ہیں ۔ تو انہیں میرے زیر تربیت پھینک دیا گیا ہے۔ میری کوششیں جاری ہیں ۔ ان طلباء کو کل اپنے وسائل کا خود اہتمام کرنا ہوگا تاکہ یہ بھی تمہارے شانہ بشانہ آگے بڑھیں اور تمہیں بتا دیں کہ ہم وہ نہیں جو اتنی آسانی سے کسی بھی  جدیدیت  سے متاثر ہو کر اپنے اقدار فراموش کردیں ۔
کبھی کبھی ان کی آپس میں تکرار ہو ہی جاتی تھی ۔   گاوں اب گاوں نہ رہا تھا مکمل متمدن شہر بن چکا تھا ۔ سلیم اور اظہر اپنی عمر تمام کر چکے تھے ۔ ان کے  اگائے ہوئے پودے اب تناور درخت بن چکے تھے ۔ اسکول و کالجز جو کہ سلیم کے مدعو کردہ " این، جی ، اوز" کے زیر اہتمام تھے ، اب  شہر کے ہر حصے میں پھیل چکے تھے ، ایک بہت ہی شاندار یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں آچکا تھا ۔ جہاں سے علماء فضلاء پیدا ہورہے تھے ۔  سارے شہر میں انہیں کا ڈنکا بجتا  تھا ۔
    اظہر کے چھپرے کی جگہ بھی ایک عمارت نے لے لی تھی ۔ اس کے علاوہ بھی اس کی کئی شاخیں وجود میں آچکی تھیں ۔  جو شہر کے مختلف  حصوں میں تعلیم عام کر رہی تھیں ۔ 
ان میں سے کسی ایک اسکول سے ایک طالبعلم اپنا بستہ اٹھائے باہر نکلا ، سائکل اسٹیند سے سائیکل نکالی ، بیگ کندھے پر ٹھیک سے لٹکایا اور پیڈل پر پیر رکھا ہی تھا کہ ایک  چمچماتی کار گزری  جس میں چار نوجوان بیٹھے فل والیوم میں "چرھتی جوانی" گانا سن رہے تھے ،   سائیکل پر چڑھے طالبعلم کو دیکھ کر آواز کسی ۔ اوے  "جاہل"  سامنے دیکھ ۔ گاڑی کے نیچے آگیا تو ۔۔۔ اور زوردار قہقہے بلند ہونے لگے۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...