ہماری بی وقوفیاں
محمد شہیر شجاع
ہم بچپن سے ہی نہایت ہی بے وقوف قسم کے واقع ہوئے ہیں
، یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ذہین و سمجھدار
باور کرایا جاتا رہا ہمیشہ ، بھلے وہ کلاس میں اساتذہ ہوں یا گھر میں والدین و
عزیز و اقارب ، ہمیشہ ہماری تعریفوں کے پل باندھ دیے جاتے کہ جی بچہ تو بہت ہی ہوشیار ہے ماشاءاللہ ۔۔
بلا کا ذہیں ہے ۔۔۔ اساتذہ ہمارے
کام کو تمام جماعت کے طالبعلموں کو
دکھا کر سیکھنے کا درس دیتے اور ہم پھولے
نہ سماتے ، ہماری لکھائی کی تو
سارے ہی نقل کرنا چاہتے ، لیکن امتحانات کے بعد جب نتیجہ سامنے آتا تو ہم دانتوں تلے انگلیاں ہی دبائے رہ جاتے کہ
سوائے ایک مرتبہ کے کبھی بھی سر فہرست نہ رہے بلکہ فہرست میں تو اکثر نام ہی نہ
ہوتا بمشکل کامیاب ٹہرائے جاتے ۔ مطالعہ کا بہت شوق تھا
، ہمارے گھر کی چھت دس فٹ کی ہوتی
تھی اور چھت عرف عام مین جسے چادر کہا
جاتا ہے اس کی بنی تھی ، چھوٹا سا صحن تھا
اس میں ایک جامن کا پیڑ ہوا کرتا تھا جس کی شاخیں چھت کے ایک بڑے حصے کو سایہ مہیا کیا کرتی تھیں
، جب دوپہر کو اماں نے قیلولہ فرمانا
ہوتا تو ہم چپکے سے کمرے سے نکلتے ، عمروعیار کی زنبیل وسلیمانی چادر کے کمالات کو پڑھنے ، ایک رسالہ آیا کرتا تھا بچوں کا " ساتھی
" کے نام سے اس کے علاوہ نونہال یا پھر اشتیاق احمد کے انسپکٹر جمشید و ٹیم کی سرگرمیاں جاننے کے لیے
چھت پر جا چڑھتے، دیواریں نہایت ہی
نیچی ہوا کرتی تھیں ، ہم تو نصف فوجی ہی
ہوگئے تھے ، جیسے ہی کھٹ پھٹ کی آواز آتی وہیں سے زمین پر دھپ سے چھلانگ لگا دیتے
اور بھاگتے ہوئے اپنے بستر میں ایسے لیٹے ہوتے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔۔ یہ الگ
بات ہے کہ ہماری سانسیں ایسے پھول رہی ہوتیں کہ اماں ہمیں دیکھ کر مسکراتیں اور خاموشی سے نکل جایا کرتیں ۔ چھوٹا سا گھر
تھا ، ہمیں ہر دوسرے دن گھر کی سیٹنگ کا بہت شوق ہوا کرتا تھا ۔ سارا گھر اٹھا کر
اتھل پتھل کر دیتے اور اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ ساری ترتیب بدل دیا کرتے ۔ کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا لیکن جیب خرچ
ہی اتنا ہوتا تھا کہ اکثر بہن کے پیسوں کی قلفی کھایا کرتے تھے ۔۔۔ ابا سے پیسے مانگنے کی تو آج تک جرات نہیں ہوتی
، امی بیچاری کو ہی تنگ کیا کرتے ۔ کتابوں
کا اچھا خاصا ذخیرہ ہوگیا تھا ، اس وقت ہمارے لیے وہ ذخیرہ ہی تھا ، ہم نے اسے
لائبریری کی شکل دینے کی ٹھانی اور آم کی جو پیٹیاں ہوتی ہیں انہیں اخبار سے سجا
کر چھت میں درخت کے سائے مین جہاں ہم کہانیوں و مطالعہ کے مزے
لیا کرتے تھے وہاں سجا دیا اور ساری کتابیں ان میں ترتیب سے رکھ دیں ۔ اگلے دن جب
ہم اوپر چڑھے ہمارا خون تھا کہ جل جل کے
پانی ہوا جا رہا تھا ۔ کتابیں بکھری پڑی تھیں اور جنہیں ہم نے ریک بنایا تھا ان
میں بلیاں بڑے مزے سے براجمان تھیں۔
کبھی کبھی پنج وقتہ نمازوں کا بھی شوق چڑھتا تو فجر
میں اٹھنے کا مزہ ہی جدا ہوتا ۔۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ہمارے محترم پیٹ صاحب ہم سے بہت ناراض تھے ۔ اور رات بھر ہمیں سزا
دیتے رہے ۔۔ کسی گھڑی آنکھ لگ گئی ، اور جب آنکھ کھلی تو ہمیں محسوس ہوا کہ اذان ہوچکی ہے کہیں نماز نکل ہی نہ جائے ، سارے
سوئے پڑے تھے کسی کی نیند خراب کرنا ہمیں بہتر محسوس نہ ہوا ۔ ویسے تو سارے ہی جاگ
جایا کرتے تھے ، امی جان جو مولا بخش لے
کر سب کی رضائیاں کھینچ لیا کرتیں ۔ خیر ہم
نے بھاگم بھاگ وضو کیا کپڑے بدلے ، اور گھر سے باہر نکل گئے ،
شکر ہے دروازہ کنڈی والا تھا ورنہ لاک والا ہوتاا ور ہمارے پاس چابی نہ ہوتی تو
۔۔ ہمارا کیا حال ہوتا ہم بتاتے ہیں ۔ ہمارا گھر گلی کے دائیں طرف بالکل آخری زاویے پر ہوا کرتا تھا ، اس کے بعد
ایک چھوٹی سی شاید دس فٹ کی ہوگی
سڑک نما تھی اس کے بعد ایک نالا تھا نالے کے پار میدان تھا میدان کے بعد بہت بڑا مدرسہ تھا ۔ جبکہ
ہماری پچھلی گلی میں مسجد تھی جہاں ہم
نماز پڑھا کرتے تھے ۔ ہوا یوں کہ جیسے ہی
ہم نے گھر سے باہر قدم نکالا ہمارے بائیں طرف سے ایک آدمی آتا دکھائی دیا ، جسے
بہر حال ہم نے پہچان لیا کہ اکثر رات بھر حضرت خوامخواہ جاگا کرتے اور کالونی کی
مفت میں چوکیداری کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے ہمیں آواز دی ، لیکن
ہم سمجھ نہ پائے اور اپنے دائیں جانب والی
سڑک کے راسے پچھلی گلی میں جو مسجد تھی اس طرف دوڑ لگا دی ۔ ہمیں احساس ہونے لگ اکہ اندھیرا کچھ زیادہ ہی
ہے ، اور جو ہماری نظریں میدان کی طرف
گئیں تو وہاں سفید سفید بہت سارے لوگ جیسے
خوب افراتفری کے عالم میں ہوں ۔ ہماری تو پیرون تلے زمین نکل گئی ۔
اب تو ہم ایتھلیٹ بن گئے اور سیدھا مسجد کے دروازے پر
جا کر دم لیا ۔ اف یہ کیا دروازہ تو بند ہے ۔۔ اب کیا کریں۔۔۔ ہم نے کن اکھیوں سے
میدان کی طرف نظریں دوڑائیں تو وہاں سفید چادر میں ملبوس وہی لوگ ۔۔ ہائے اللہ یہ
کیا ہوگیا ۔۔ کہاں جائیں کیا کریں ۔۔ وہیں مسجد کے سامنے ایک چبورا تھا اس میں
بیٹھ کر تھر تھر کانپنے لگے ۔ اتنے میں وہ
حضرت جو مفت کی چوکیداری کیا کرتے تھے ، وہ بھی آدحمکے ۔۔ اور لگے پوچھنے ۔۔۔کہ یہاں کیا کر رہے ہو " ۔ ہم نے کہا انکل نماز کا وقت
سمجھ کر چلے آئِے ۔۔ ابھی تو مکمل ایک
گھنٹہ یا اس بھی زیادہ کا وقت باقی ہے ۔ حضرت نے ہمیں احساس دلایا ۔۔ چلو جاو گھر
جاو سو جاو ۔ جب اذان ہو آجانا ۔۔ ہم نے کہا اچھا ہمیں گھر تک تو چھوڑ آئیں ۔ خیر
انہوں ے ہمیں گھر تک چھوڑا ہم نے آرام سے
کندی کھولی کہ آواز سے کوئی جاگ نہ جائے اور خاموشی کے ساتھ اماں کی پنڈلیوں میں
اپنے آپ کو لپیٹ کر سوگئے۔
No comments:
Post a Comment