Thursday, December 22, 2016

مجلس شوری ، قانون سازی اور عوام

مجلس شوری  ، قانون سازی اور عوام
شہیر شجاع
ہماری عدالتوں سے ایک  گونج لہراتی ، بل کھاتی ملک کے دانشوروں ، قانون دانوں ، سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ، عام شہری ، صحافت کے ایوانوں ، غرض چپے چپے  سے ٹکرا کر پاش پاش ہو رہی ہے ۔ لیکن کہیں اس گونج پر فکر کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ وہ صدا کیا ہے ؟
" ہم انصاف دینا اور کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر قانون کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے " ۔  یہ وہ صدا ہے جو قیام پاکستان سے اب تک ملک کے گوشے گوشے کی پکار ہے ۔  ہم نے بڑی مشکلوں سے اللہ جل شانہ  کے فضل و کرم سے ایک بہترین آئین  کی تشکیل کی  ۔ یہ واقعہ قیام پاکستان کے کوئی چھبیس سال بعد پیش آیا ۔ اس سے پہلے بھی آئین بنے ،ٹوٹے ،  پھاڑے گئے ۔ ۔  آج  ستر سال مکمل ہونے کو ہیں ۔ ہماری  مجلس شوری  یا پارلیمنٹ  اب تک قانون سازی  کے عمل کو اس مقام تک نہیں پہنچا پائی جہاں سے عدالتیں  مملکت خداداد کے باشندوں کو  انصاف فراہم کرسکیں ۔   کہا جاتا ہے بوٹوں کی دھمک نے  پارلیمنٹ کی تکریم کو اس قدر پامال کیا ہے کہ اس کو اپنے مقام تک پہنچنے میں  وقت لگ رہا ہے ۔ یا یہ کہ طاقت کا مکمل ادارہ اب تک پارلیمنٹ نہیں بن سکا ہے ۔ یا اس جیسے مختلف  بہانوں  کے ذریعے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک  کر ہمدردیاں سمیٹی جاتی رہی ہیں اور جا رہی ہیں ۔ سوال یہ کہ پارلیمنٹ  کی تکریم کو حقیقت بنانے کے لیے ملک کا غریب و نادار یا متوسط طبقہ سڑکوں پر نکل کر ، اور لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہو کر ووٹ دے کر چند افراد کو یہ ذمہ داری سونپتا ہے ۔ کیا ان ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ؟   بہت عرصے  بعد عام آدمی پارلیمنٹ کی  جانب نظریں مرکوز کرنے اور وہاں پیش آنے والے واقعات  کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوا ہے ۔ تو وہ دیکھتا ہے اس ادارے  میں  " پارٹیاں(ٹولے) " ہوتی ہیں ۔ " ذمہ دار " یا " سیاستدان" نظر نہیں آتے ۔   جہاں جھوٹ کو " سیاسی بیان " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اور سیاست کے لفظ کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ سیاست کو سماج کا سب سے بہترین اور محترم پیشہ قرار دیا گیا ہے ۔ کیا یہ وہی سیاست ہے ؟ یہ سوال ایک عام سماج کے طالبعلم کے ذہن میں اٹھتا ہے ۔  وہ دیکھتا ہے  ۔پارلیمنٹ  جسے ہم اپنی زبان میں مجلس شوری کہیں تو  اس ادارے کے خدو خال اور اس کے  اغراض و مقاصد زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ،  وہاں قوم کے نمائندوں کی جگہ پارٹی کے نمائندے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر یا رہنما کی اصطلاح ایک ایسے شخص کی ہے جو ان نمائندوں کے لیے نعوذ باللہ خدا کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس کے اچھے برے افعال کی پردہ پوشی اور سینہ زوری کی حد تک  دفاع ان نمائیندوں کی ذمہ داری ہو ۔ جنہوں نے انہیں وہاں بھیجا ہے ، ان کے  اغراض کہیں دور سڑکوں میں ایک پنڈال کے اوپر ڈائس میں کھڑے شخص کے جھوٹے وعدوں کی شکل میں گونج بن کر رہ جاتے ہیں ۔ جس گونج  کو سینے سے لگائے ،افراد  ان کے حق میں سڑکوں پر کئی دنوں تک اپنے کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ حلق  سے محض نعرے بلند ہوتے ہیں جس کا مقصد ان کے حقوق ، اور انصاف کی سربلندی ہی ہوتا ہے ۔ اور پھر ایک دن لمبی قطاروں کے صبر آزما لمحات ، جس میں سوا نیزے   پر آئے سورج کی تپش  ، دھول مٹی وغیرہ سے نبرد آزما ہو کر  صرف ایک ووٹ دیتے ہیں  ۔ جس ووٹ کو پانے کے لیے  وہ ادارہ انسانیت سوز حالات  تک سے  اپنی عوام کو نہیں نکال پائے ۔  
بہر حال  مجلس شوری  دراصل ملک کے بہترین اذہان  کے مل بیٹھنے کا ادارہ ہے ۔ جنہیں عوام الناس منتخب کرتے ہیں ۔  وہ دیکھتا ہے ، ملک کے سب سے بہترین اذہان ، جھوٹ  ، فریب ، مکاری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ اور ان سب کا مقصد اپنے ملک سے وفاداری بھی نہیں بلکہ اپنی پارٹی سے وفاداری ہے ۔ وہاں ٹھیکوں پر بحث ہوتی ہے ۔ وہاں وزارتوں پر بحث ہوتی ہے ۔ اس مجلس میں شوری کا عمل مفقود دیکھ کر اس کا دل بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کے دماغ میں گونج ابھرتی ہے ۔ جمہوریت ہی ہماری بقا ہے ۔ ایک اور گونج ابھرتی ہے ، جمہوریت بہترین اتنقام ہے ۔ وہ سوچتا ہے ۔ انتقام کس کے خلاف ؟
یوں صدی بیتتنے کو ہے اور قانون سازی کا عمل جمود کا شکار ہے ۔ وہ منتخب نمائندے   اپنے اپنے مفاد کے لیے لڑتے رہیں گے ۔ ہر پانچ سال بعد ڈائس پر کھڑے ہو کر ہمیں چورن بیچیں گے ۔ اور ہم ذوق و شوق سے وہ چورن  چاٹ کر اسی   جنون کے ساتھ انہیں واپس انہیں مسندوں پر بٹھائیں گے ۔ جہاں  بیٹھ کر ان کی تمکنت  ایک مرتبہ پھر قائم ہوجائے گی ۔ پھر مفادات کی جنگ ہوگی ۔ انصاف  کے ادارے ایک جانب کھڑے ان کا چہرہ تکتے رہیں گے ۔  اور انصاف کی  بے بس صدائیں ہونہی  ایوانوں سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہیں گی ۔  

Saturday, December 17, 2016

عصبیت کیوں ضروری ہے ۔ ؟

عصبیت  کیوں ضروری ہے ۔ ؟
شہیر شجاع
اخلاقیات کے معیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلی دنیا میں کسی کے ہو ہی نہیں سکتے ان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ تابعین تبع تابعین وغیرہ وغیرہ ۔۔ ہم کس کھیت کی مولی ہیں ؟
آج دنیا کا ہر شخص ، جماعت ،کسی نہ کسی عصبیت کا حامل ہے ۔ جس عصبیت کے تحت اس کی خود اعتمادی کا دارومدار ہے ۔ خواہ وہ قومی ہو ، لسانی ہو ، ذاتی ہو ، عہدہ ہو ،  مذہب ہو ، مسلک ہو ، غرض بنا عصبیت کے تعلقات استوار کرنا ممکن نہیں ہے ۔  لیکن ہر عمل معتدل ہونا ضروری ہے ۔ اسی وجہ سے اس فکر سے کنارہ کرنا افضل ہے ۔ کیونکہ انسان اعتدال کرنے میں سست ہے ۔ 
پاکستان کی سرزمین پر نگاہ دوڑائیں ۔۔ سرسری ہی سہی ۔۔۔ کوئی سندھی ہے ، بلوچی ، پنجابی ، مہاجر ، پٹھان ، سرائیکی ، کشمیری ، وغیرہ وغیرہ ۔۔ ہر دوسرا شخص لسانی عصبیت کا شکار ہے ۔  ہر ایک لسانی عصبیت دوسری عصبیت کو برا سمجھتی ہے ۔ ان کے بارے میں غلط رائے رکھتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے ۔ کہیں پنجابی پختون  نفرت ہے تو کہیں مہاجر پختون ۔ کہیں مہاجر پنجابی ، کہیں سندھی مہاجر ، کہیں بلوچی پنجابی ۔ اخبارات میں سرائیکی پٹی کا رونا بھی ہم پڑھتے رہتے ہیں ۔ یہ لسانی عصبیت پاکستانی باشندوں کی جڑوں میں نہایت اندر تک سرایت کر چکی ہے ۔
ایک امریکی  ، یورپئین یا اسرئیلی کی نفسیات کا مشاہدہ کریں تو اندازہ ہوگا ۔ اس کی  عصبیت اس کا مذہب ، اس کے وطن کی سیاسی پالیسی  اور وطنیت کا امتزاج ہے ۔    اور اس میں اس کی پختگی کی وجہ سے وہ دیگر عصبیتوں کا دلی احترام کرنے کا مثبت  جذبہ رکھتا ہے ۔ جبکہ ہم عدم برداشت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔۔ کیونکہ ہماری کوئی عصبیت سرے سے ہے ہی نہیں ۔ بلکہ ہم تعصبات کا شکار ایک ہجوم ہیں جس کے کوئی مقاصد نہیں ۔ محض نظریات ہیں ۔ اقوال ذریں ہیں ۔ اور ڈھیروں مواعظ ہیں ۔  عملی طور پر ہم نفرتوں کو فروغ دینے والا ایسا ہجوم ہیں جس کے آنکھ ، ناک ، کان ، عقل سب غیر کے تابع ہیں ۔
کوئی نہ کوئی ایسی عصبیت تو ضرور ہے جس کا اتباع انسانوں کو جوڑنے ، باہمی محبت و احترام کا باعث ہے ۔ اور یقینا ہے ۔

Friday, December 16, 2016

حلب سے نکلتا دھواں

حلب سے نکلتا دھواں
شہیر شجاع
ایسی تاریخی سرزمین ہے ۔ جس خطے نے صدیوں کے عروج و زوال دیکھے ہیں ۔جس کا خاص حصہ مسلمانوں سے جڑا ہے ۔ انہی کے عروج و زوال کے مناظر اس خطے  کے درو دیوار میں اب تک پیوست ہیں ۔ اور وہی خطہ آج خون میں نہایا ہوا ۔ جس خطے نے دنیا کو تہذیب  سے روشناس کرایا ۔ انساں کو انساں  ہونے کا یقین دیا ۔ علوم و فنون  کے جوہر سے آشنا کیا ۔ جو  دنیا میں گوشے گوشے میں پیغام امن و ایمان  پہنچانے کے ذرائع  کا اہم جزو قرار پایا ۔  وہی آج شدید بد امنی و بے کسی  کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔  اس خطے کے رشتوں میں تو ساری دنیا قرار پاتی ہے ۔ مگر   کلمہ لا الہ الا اللہ  کے تعلق سے   ملت اسلامیہ کا رشتہ ان سے خاص ہے ۔ کوئی آواز گرچہ اٹھتی دکھائی نہیں دیتی ۔ خون جگر کا بہتے نظر نہیں آتا ۔ مناظر البتہ نہایت ہی مضحکہ خیز ہیں ۔۔ ٹھیک ان دنوں جب آگ و خون کی بارش میں وہ بے کس و بے آسرا خواتین و حضرات ۔ بچے و بوڑھے ۔ مدد مدد پکار رہے تھے ۔ آسمان  جن کا سرخ ہو چکا تھا ۔ زمین تنگ ہوچکی تھی ۔ ان کا عرش میں  اللہ جل شانہ اور زمین میں  امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواوں کے سوا کوئی نہ تھا ۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ان دنوں ۔ اربو ں کھربوں روپے  ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشیاں منانے پر لٹا رہے تھے ۔ وہاں بہنوں کی عصمتیں لٹ رہی تھیں ۔ یہاں دھمال ڈالے جا رہے تھے ۔ وہاں بچے ذبح ہو رہے تھے ۔ یہاں کیک کاٹے جا رہے تھے ۔ زمینِ حلب سسکتی رہی ۔ اور زمین عجم   میں گریہ و دھمال کا امتزاج عجب رہا ۔ مگر  کوئی تلوار نہ اٹھ سکی جو مظلوم کی داد رسی کے مقصد سے ظالم کی گردنوں کو پاش پاش کر دے ۔ کسی " عظیم مسلم راہنماوں " میں کسی میں جرات  و بیباکی نظر نہ آئی جو مظلوم کلمہ گو مسلمانوں  کو آغوش رحمت کی کم از کم یقین دہانی ہی کراتا ۔ کوئی جماعت اٹھتی  جو مظلوموں  کی پشت پر کھڑی ہوتی ۔ ظالم سوچنے پر مجبور ہوتا ۔ اس کے دل میں دبدبہ پیدا ہوتا ۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے ۔  چند مزید بے بس انسانوں کا اپنے کلمہ گو بھائی بہنوں بیٹیوں  کے لیے گریہ سڑکوں ، اور سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا  تک محدود ہے ۔   مساجد میں دعائیں ہوتی ہیں تو اس میں بھی مفادانہ  نہج محسوس ہوتی ہے ۔ جیسے  انصاف سے بڑھ کر ہمارے لیے  مسلک و مذہب اول ہوں ۔ ہماری زندگی  کا مقصد مسلک  و مذہب کا احیاء ہو ۔ مگر انصاف ؟ انصاف  کا طلبگار کوئی نہیں ۔ یہ کیسی پستی میں ہم آگرے ہیں ۔ انصاف کے نام پر مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ مسلک کے نام پر قتل ہوتا  ہے ۔ مذہب کے نام پر ٹھٹھہ  ہوتا ہے ۔   انصاف  تو  امن کا ضامن ہے ۔ پھر کیوں منصف ناپید اور طلبگار  بے بس ہیں ؟ اور جنہیں  انصاف کا علم بلند کرنا چاہیے ۔ انصاف کا تقاضہ گلی محلے ، گھر گھر اجاگر کرنا چاہیے ، وہ  اذہان کو  سڑے ہوئے انڈوں کی باس کیوں بنا رہے ہیں ؟
سماج و معاشرت انصاف  کے جھنڈے تلے پنپتے ہیں ۔ جہاں انصاف نا پید ہوجائے وہ معاشرہ گل سڑ جاتا ہے ۔ اور اس کی بدبو اذہان کو شدید پراگندہ کر دیتے ہیں ۔ جس کا مشاہدہ ہم  زندگی کے اس دور میں دیکھ سکتے ہیں ۔ جب  کبھی اس زمانے کی تاریخ لکھی جائیگی تو ظالم کا بو ل بالا لکھا جائے گا ۔ مظلوم اس قدر منتشر   ہوگا کہ اسے یہ بھی علم نہیں  رہا ہوگا کہ وہ مظلوم ہے یا ظالم ؟یہ سماج  ، زوال کی ان تاریک حدوں کو چھو رہا ہے جس کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی  شعوری طور پر سماج کو  پراگندہ کر رہا ہے  ۔ جب زمین سے علم ، سیاست و سیادت ، اور سب سے اہم انصاف ختم ہو جاتا ہے ، پھر ایسے ہی مسائل سے سماج کا سامنا ہوتا ہے ۔ سماج نے اب تک  مرض کی تشخیص کی کوئی  سنجیدہ سعی نہیں کی ۔ پھر کیونکر علاج ممکن ہو ؟  
ان دنوں  ایک تاریخ لکھی گئی تھی ۔۔۔ جن کے دو باب ہمارے سینوں میں  ہر دن  آگ دہکائے رکھتے ہیں ۔ جب مملکت خداداد کا ایک بہترین خواندہ طبقہ اپنے آپ کو الگ کر گیا ۔ اور ہم تڑپتے رہ گئے ، بلکتے رہ گئے ۔ مسمساتے رہ گئے ۔  اور اس کے ٹھیک چار دھائیوں کے بعد ایک اور تاریخ لکھی گئی ۔ جب معصوم بچوں کے خون سے زمین تڑپ اٹھی ۔ در و دیوار لرز کر رہ گئے ۔ ماؤں  کے دل پھٹ گئے ۔ آباء  کے بازو کٹ گئے ۔ گریہ و زاری کا بازار گرم ہوا ۔ آگ و خون  کی  ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ مگر ۔۔ مگر ۔۔ مگر ۔۔  ان سب کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا ۔ ہم نے اپنی روش نہ بدلی ۔ ہماری  نیند کا خمار نہ  چَھٹ سکا ۔  ہمارے دل نہ بدل سکے ۔ ہمارا شعور  اب بھی ویران راہوں میں بھٹک رہا ہے ۔ ہماری توجہ کا محور اب بھی ہماری اپنی کوشش اور ہمارے اپنے مفاد  کا مسبب نہیں بلکہ ہمارا ذہن ، ہماری سوچ ، اور  ہمارے مسئلے وہ ہیں جو ہمیں بتائے گئے ہیں ۔  کسی نے کیا خوب لکھا ہے ۔ یہ "پوسٹ ٹروتھ" ہماری زندگی بن چکی ہے ۔ آسان لفظوں میں پروپیگنڈے سے متاثر ۔ علم و شعور سے دور ، عقل  کی بنیادوں سے محروم  ہم اپنی ہی جڑیں کاٹتے جا رہے ہیں ۔  زمین ظلم و جور سے بھرتی جا رہی ہے ۔ مظلوموں کی چیخ و پکار بے معنی ہو کر رہ گئی ہے ۔
ایسے میں ایک شخص کی موت  ہوتی ہے ۔ اسی سماج کی شعوری کوشش سے ایک طیارہ تباہ ہوتا ہے سینتالیس جانیں اللہ جل شانہ کو پیاری ہوتی ہیں ۔ ان میں ایک ایسا شخص بھی ہوتا ہے ۔ جس کی موت ہمیں جھنجوڑ ڈالتی ہیں ۔ کم از کم ایک خوبصورت امید کے موتی ہماری آنکھوں میں جھلملانے لگتے ہیں ۔ دلوں کی دھڑکن  کو  چند  پر امید ساعتیں میسر آتی ہیں ۔ کہ چراغ کی لو مدہم ضرور ہے پر بجھی نہیں ۔ تیل ابھی باقی ہے ۔

Wednesday, December 14, 2016

بغداد و حلب ، اور دستور غلامی




بغداد و حلب ، اور دستور غلامی
شہیر شجاع
بغداد  وہ شہر ہے جس کی علم سے بہتی نہروں سے دنیا مستفید ہوئی ۔ جہاں ظلم و انصاف   ، علم و ادب ، خزاں و بہار ، خون و پھول ۔۔ غرض زندگی کے ہر روپ کی کلی یہاں سے مہکی اور گدلے پانی کی مہک بھی طبیعت کو ناشاد کرتی رہی ۔ یہاں تک ایک دن آیا وہ سب نیست و نابود ہوگیا ۔۔۔ مگر جو بیج وہاں بویا گیا، اس کی تازگی ، اور اس شجر کی آب و تاب عرصہ دراز تک  مدہم نہ ہو سکی ۔
ایک عورت کی پکار ۔۔۔ وا معتصماہ ۔۔۔ پر خلیفہ کا تخت سے اتر کر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ جانے اور ننگی تلوار میان سے نکال کر اعلان کرنا کہ جب تک میں اس خاتون کو انصاف نہ دلا دوں میں چین سے نہ بیٹھوں گا ۔ یہ صدا آج بھی درو دیوار میں گونجتی ہے ۔۔
جب  بغداد سے حلب تک، ماوں سے بچوں کو چھین کر انہیں ذبح کیا جاتا ہے ، تو وہ صدا سسکتی ہوئی کہتی ہے ، میں اس قدر بے حس تو نہ تھی ؟
  حجاج بن یوسف پکار اٹھتا ہے ، میں اس قدر ظالم تو نہ تھا ۔۔ ؟ میری حدود میں کوئی میری ماوں بہنوں بیٹیوں بچوں پر ذرہ بھر ظلم کر جائے ، کسی  میں اتنی جرات تو نہ تھی ؟  
یہ کیسے لوگ ہیں جو اسی سرزمین پر بے یار و مددگار ہیں ؟
ان کی پکار  بے آب و گیاہ صحرا میں  ایک گونج کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتی ؟
اربوں دل ان پکار پر خون خون کیوں نہیں ہوتے ؟َ
حلب کی لٹتی عصمت  دنیا میں زندہ دل کہلائے جانے والے اورمذہب سے بالا انسانیت کا درس دینے والوں کی آنکھوں میں چند قطرے تک نہیں پیدا کرسکتی ؟
اتحاد بین المسلمین کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اور ہمیں اتحاد بین المذاہب کا درس کیوں دیا جا رہا ہے  ؟ جس کی آڑ میں ،معصوم و نہتے کلمہ گو ، خون میں نہاتے چلے جا رہے ہیں ۔تر بتر ہیں ، بے گھر و بے آسرا ہیں۔ 
امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، یہ تمام فوجیں وہاں موجود ہیں ۔ پر زمین ان کی نہیں ہے ۔ پھر یہ کس کی زمین ہے ؟ کس کا خون بہہ رہا ہے ؟ کیوں اس خون کی بو ہمارے دلوں کو تڑپنے پر مجبور نہیں کر دیتی ؟ مغربی دنیا محفوظ پر مشرقی دنیا مجبور و بے کس کیوں ہے ؟
کیا ہماری آنکھوں میں یونہی پٹیاں پڑی رہیں گی ؟ ہمیں فریق نہیں بننا ۔ ہمیں امتی بننا ہے ۔ پر کیسے ؟ لبرل و سیکولر کی جنگ لڑ کر ؟
ہم انصاف کے جھنڈے تلے کھڑے ہونے کی تاب نہیں رکھتے۔ پر ہمیں لبرل ، سیکولر،سوشلسٹ ، کمیونسٹ ، فاشسٹ ،اسلامسٹ کی جنگ لڑنی ہے ۔  ہم ان ابحاث میں اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں ۔ ساتھ ساتھ ہمارے گھر جلتے جا رہے ہیں ۔ آگ بالکل ہمارے درمیان پہنچ چکی ہے ۔ مگر شاید ہمارا  دل اب اس قدر سیاہ ہوچکا ہے کہ ، اس کی تپش ہمیں محسوس نہیں ہوتی ۔
اتحاد سے پہلے انصاف کی ضرورت ہے۔ اپنے ذہن کو انصاف کے تابع کرنے کی ضرورت ہے ۔۔ جب ہم میں انصاف کی پہچان ہوجائے، اس کی طلب پیدا ہوجائے، اس کے لیے مر مٹنے کا جذبہ بیدار ہوجائے ۔  خودبخود ۔ انسانیت جی اٹھے گی ۔ تمام مسالک مر جائیں گے ۔ بس رہے گا نام خدا کا ۔۔۔ اور زندگی ہنسے گی کھیلے گی ۔۔۔۔
 ہوش میں آنے کا مقام ہے ۔۔۔ ہمارے ابحاث یہ نہیں کہ ہمیں سیکولر ہونا ہے یا لبرل ، سوشل ، کمیونسٹ یا اسلامسٹ ؟
ہمیں انصاف کے جھنڈے تلے جمع ہونا ہے ۔ اس کے بعد ہی میرے اور آپ کے نظریات ایک دوسرے کے لیے محترم ہو سکتے ہیں ۔ ورنہ میری مائیں بہنیں بچے یوں ہی جلتے رہیں گے ۔۔ اور نفرتوں کا الاو جلتا رہے گا ۔۔ یہاں تک کہ ایک دن یہ آگ ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی ۔پکارنے پر بھی کوئی مدد کو نہیں آئے گا ۔ روح تو جل کر خاکستر ہو چکی ۔ بچا کھچا بدن بھی نیست و نابود ہو جائے گا ۔
یہ آہیں ،  یہ سسکیاں ۔ خون میں لتھڑی ، بے گورو کفن لاشیں ۔ مجھ سے جواب طلب کرتی ہیں ۔  مجھے اپنے رشتے کا سوال کرتی ہیں ۔ وہ ذبح ہونے والا بچہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھتا ہے ۔ کیا میرا تیرا رشتہ نہیں ؟  میری آنکھیں جھک جاتی ہیں ۔   مگر ان میں ایک قطرہ آنسو کا نہیں چھلکتا ۔ میرا دل نہیں پھٹتا ۔ دوسرے ہی لمحے میں اپنا رخ بدل کر  زندگی کا درس دینے اور لینے لگتا ہوں ۔ جس میں انسانیت بالائے مذہب سے اول مقام رکھتی ہے ۔ میرے دل میں ٹیس نہیں اٹھتی ، جو سوال کرے ۔ مذہب وانسانیت کے علاوہ بھی  ایک مسلک ہے ۔ اور وہ ہے غلامی ۔

Saturday, December 10, 2016

دعوۃ و تبلیغ ، تبلیغی جماعت


دعوۃ و تبلیغ ، تبلیغی جماعت
شہیر شجاع
مدینہ منورہ سے تبوک ایک چلے کی جماعت آئی ہوئی ہے ۔ اب ہم دنیا دار لوگ اپنی دنیا  کے جھمیلوں یا فرصت کے اوقات میں  لطف اندوز ہونے کا سوچتے ہیں ۔۔ جبکہ دوسری جانب بہت سے ایسے افراد جو اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالتے ہیں ۔۔ اور  مسرت کے لمحات کی قربانی دیتے ہیں صرف اس لیے کہ اللہ کے دین کے لیے کچھ وقت دے دیا جائے ۔۔ چند لمحات قیمتی بنا لیے جائیں ۔۔
کچھ عرصہ قبل مجھے ایک کال موصول ہوئی ۔۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے  ان کا نام عبدالماجد بھائی تھا ۔ کیوں ؟ محض نسبت دین سے ۔ چند لمحے جو بھی ہمارے گزریں اس میں دین کی باتیں ہوں ۔ اور کوئی مقصد نہ تھا ۔ میرے پاس آئے کچھ دیر بیٹھے ، ہمارے درمیان چند باتیں ہوئیں ، اور وہ چلے گئے ۔ اور مجھے سوچنے پر مجبور کر گئے کہ میں بھی مسلمان کہلاتا ہوں ۔۔ اور نہ جانے اپنے ذہن میں کتنے کبر پال رکھے ہیں ۔ کہیں اپنے آپ کو بہتر سمجھتا ہوں کہیں برتر ۔ کسی معاملے میں اپنے آپ کو عالم سمجھتا ہوں ۔چند معاملات میں اپنے شعور کو دوسرے کی نسبت درست سمجھتا ہوں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔ اور ان بتوں نے میری زندگی میں کیا اثرات مرتب کر رکھے ہیں ؟ نہ مجھ میں علم ہے ؟ نہ عمل ہے ؟ بس باتیں ہیں ۔۔ اور باتیں بھی اتنی کہ اچھے خاصے عالم حضرات متاثر ہوجاتے ہیں ۔۔ یکدم مجھے محسوس ہوا ۔ وہ متاثر نہیں بلکہ میری دلجوئی کرتے ہیں ۔۔ شاید کہ کچھ خیر انہوں نے مجھ میں دیکھا ہو ۔ اور وہ خیر بتدریج بڑھے۔ 
مجھے احساس ہوا میں دراصل ایک خمار میں جی رہا ہوں ۔۔ جس میں صرف میں ہی میں ہوں ۔۔ مجھے ساری دنیا کم عقل و بے شعور نظر آتی ہے ۔ یہ ایک ایسا خمار ہے ۔۔ جو مجھ میں منافقت بھردیتی ہے ۔ میں سامنے بہت خلوص سے ملتا ہوں۔ مگر جیسے ہی مجلس بر خاست ہوتی ہے ، مجھے ان لوگوں پر ترس آنے لگتا ہے ۔ جیسے میری عقل سب سے بہتر ہو ۔   اس جیسے مختلف احساسات نے مجھے جھنجھوڑ ڈالا ۔ مجھ میں اپنی انتہائی کم مائیگی کا احساس شدید ہوگیا ۔ ہر دوسرا شخص مجھے بہتر  لگنے لگا ۔  محسوس ہوا کہ حقیقت یہی ہے ۔ میں تو کچھ بھی نہیں ؟ سوائے کلمہ شہادت کے میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔ اور اس کلمے کے معنی و مفہوم بھی درست طریقے سے جانتا ہوں نہ سمجھتا ہوں ۔ اور بڑے بڑے نظریات پر گفتگو ایسے کرتا ہوں جیسے کوئی بہت بڑا عالم ہوں ؟ ۔۔ 
ایسا کیوں ؟
اس سوال کا جواب تو مجھے مل گیا ۔ مجھ میں سیکھنے کی طلب مزید بڑھ گئی ۔۔ علم کی پیاس شدید ہوگئی ۔۔۔ عمل کی جانب بڑھنے کی جستجو پیدا ہوگئی ۔  فی زمانہ دنیا  کی جستجو میں مگن روحانی طلب کو پورا کرنے کا ماحول عام نہیں ہے ۔  مگر یہ شاذ بھی نہیں ہے ۔ ہر محلے میں ایسی مجالس کا اہتمام ہورہا ہے ۔ بس اس ماحول سے مستفید ہونے کی جستجو ہونی چاہیے ۔ اس ماحول کی طلب ہونی چاہیے ۔ بیشک ہر ایک باعمل نہیں ہوتا ۔ پر ماحول کے زیر اثر ضرور ہوتا ہے ۔ اور ماحول بتدریج ہی متاثر کرتا ہے ۔
کم از کم  اتنی سی بات کا ہی ادراک ہوجائے کہ ۔۔
ان الانسان لفی خسر ۔۔۔ بیشک انسان خسارے میں ہے ۔۔۔
 تو ہمارے ذہنوں میں موجود انجانا احساس کبر مٹ جائے ۔ جو شدت سے ہم میں سرایت کر چکا ہے ۔ ہمیں  ہر خیر کی چیز سمیٹ لینے سے روک لیتا ہے ۔ جس کبر نے کمارے ذہنوں میں وسوسے پیدا کر رکھے ہیں ، اور  کبر ہو کر بھی ہمیں محسوس نہیں ہوتا ۔
تو بات ہو رہی تھی  چلے کی جماعت کی ۔ جناب عبدالماجد صاحب بہت محبت کرنے والے انسان ہیں ۔  انہیں اس جماعت کا علم تھا ۔ وہ خود انڈین ہیں ۔ انہیں علم ہوا کہ وہ جماعت پاکستان کی ہے اور اس میں ایک صاحب کا تعلق کراچی سے ہے ، تو وہ مجھے اس جماعت سے ملانا چاہتے تھے ۔ میں نے رضامندی ظاہر کردی ۔ ہم اگلے دن جمعے کو عصر کی نماز کے بعد  جماعت  سے ملنے جا پہنچے ۔ الحمد للہ بہت ہی بہترین وقت گزرا اور وقت کے حقیقتا  قیمتی ہونے کا احساس میں نے دل سے محسوس کیا ۔  جن کا اچھا وقت لگا ہوتا ہے ۔ اور جوواقعتا اپنے آپ کو مکمل طور پر دعوۃ کے کام  کو سونپ  چکے ہوتے ہیں ۔ ان کی باتوں میں ،  ان کے ملنے کے انداز میں ایک خاص عنصر جو آپ شدت سے محسوس کرتے ہیں وہ ہے ان کے اعلی اخلاق ، نبوی اخلاق ۔ جس میں  اپنی ذات سے مکمل کنارہ کشی ۔ محض اللہ کی ذات ہی بلند و بالا اور ہر مخاطب اپنے آپ سے برتر و بہتر ۔   ورنہ دعوۃ و تبلیغ سے جڑے بیشتر ایسے افراد بھی ملیں گے  جنہیں دیکھ کر مجھ جیسے بد بخت  دل میں برا سوچنے لگتے ہیں ۔ اور  مختلف خیالات و نظریات کے آئینے میں   منفی  نتائج اخذ کر بیٹھتے ہیں ۔ ہوتا کیا ہے ؟ ہم خود ہی اپنے آپ کو خیر سے دور کر لیتے ہیں ۔ 
بہر حال جماعت کے امیر صاحب  مردان کے ایک بزرگ تھے ۔ اللہ جل شانہ ان سے راضی ہوں ۔ نہایت ہی خوش اخلاق، ملنسار ۔ عبدالماجد بھائی ان سے  پہلے ہی مل چکے تھے ۔ سو انہیں علم ہوا تھا کہ امیر صاحب انیس سو اکیانوے میں ڈیڑھ سالہ  بیرون ملک لگا چکے ہیں جس میں وہ بارہ ملک گھومے بنا ہوائی جہاز استعمال کیے ۔ انہیں اس کی ممانعت تھی ۔ اور شدید ضرورت کے تحت ہی کسی بھی قسم کی سواری کی اجازت تھی ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد سے ملاقات ہو سکے یا مزید بھی کوئی حکمت ہو سکتی ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ پاکستان سے جماعت نکلی ایران ، پھر ترکی ، شام ، اردن ، مصر ، سوڈان ، تنزانیہ ہوتے ہوتے زمبابوے ان کا آخری پڑاو تھا ۔ اور یہ سارا سفر پیدل ہوا ۔ دس فیصد سفر ٹرکوں وغیرہ میں رہا ہوگا ۔ فرماتے ہیں عجیب و غریب جنگل ، پہاڑ ، صحرا  اور اللہ کی نصرت کے ایسے ایسے واقعات دیکھنے میں آئیں عقل دنگ رہ جاتی تھی ۔اور ایسے ایسے غیر مسلموں سے ملنے کا اتفاق ہوا کہ اپنے مسلمان ہونے پر شرم آتی تھی ۔   کارگزاری تو طویل ہے ایک واقعہ  سنا رہے تھے ۔ فرماتے ہیں ، وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں چہار سو نصاری یا کرسچین آباد تھے ۔ کوئی مسلمان نظر نہ آتا تھا ۔ مگر وہ کرسچین لوگ ان کی نصرت کر رہے تھے ۔ انہیں اپنے گھروں میں رہنے کو جگہ دے رہے تھے ۔ کھانے پینے کی اشیاء سے خاطر کر رہے تھے ۔ ان کے بچے ان کی تعظیم یوں کر رہے تھے جیسے وہ کوئی نادر مخلوق ہوں ۔ سر جھکا کر ملتے سر جھکا کر ان کی خدمت کرتے ۔ وہ  یہ سب تعجب  سے دیکھ رہے تھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔  تو  فرصت دیکھ کر انہوں نے  ایک صاحب سے پوچھا یہ ماجرا کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ آپ لوگ تو حضرت عیسی علیہ السلام کا کام کر رہے ہیں ۔ آپ لوگ بہت بڑا کام کر رہے ہیں ۔ آپ لوگ ہمارے لیے بہت خاص ہیں ۔ ہمارے لیے معظم ہیں ۔ وہ بتاتے چلے گئے اور وہ شرم سے ڈوبتے چلے گئے کہ ایک یہ عیسائی ہیں اور دوسرے ہم مسلمان ہیں ۔ ان کے بچوں کی کتابوں میں عیسی علیہ السلام پر مضامین موجود تھیں ۔ یعنی بچپن سے ہی انہیں عیسی علیہ السلام کی زندگی اور ان کے خصائل و سنن سے آگاہ کردیا جاتا ہے ۔  یہ صرف ایک گھر کا نہیں دیہات در دیہات  میں ایسی ہی صورتحال کا مشاہدہ رہا ۔
اس بیٹھک میں  ان کی ایسی ایمان افروز کارگزاری تھی جی کرتا تھا ساری رات وہ سناتے جائیں اور ہم سنتے جائیں ۔  

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...