Monday, April 9, 2018

معاشرتی زوال

معاشرتی زوال
شہیر شجاع
پاکستانی معاشرے کی کایا کلپ آنا فانا نہیں ہوئی بلکہ فطری اصولوں کے تحت ہی آہستہ آہستہ مختلف اسباب کے حدوث کے ساتھ ہوتی گئی ۔  پاکستان جب معرض وجود  میں آیا تو ہم سیاہ و سفید کی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ اس خطہ ارضی کی مثال ایک بنجر زمین کے بجز کچھ نہ تھی ۔ سونے پہ سہاگہ اس زمین  کو قابل کاشت بنانے کے لیے جو لوازمات درکار ہوتے ہیں ان سے بھی محرومی تھی ۔ پھر وہ کیا تھا ؟ کیسا معجزہ تھا یا وہ انتھک محنت و اخلاص تھا کہ   دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اس زمین نے سوکھ کر قحط سالی کا شکا رہوجانا ہے اور وہ دن آیا کہ اس کے باسی بھوکے پیاسے نیست و نابود ہوجائیں گے ۔ مگر اس  خطے نے دنیا میں ایک ایسا مقام پیدا کیا کہ عالم دنگ رہ گیا ۔ اس نے ہر طرح کے ہیرے پیدا کیے جس نے چار دانگ اپنی قابلیت کو منوایا اور اس خظہ ارضی کو اپنے پیروں پر یوں کھڑا کیا کہ اس کا چوڑا سینہ دیکھ کر آنکھوں میں جلن  اور دلوں میں حسد نے  جگہ بنالی ۔ 
۔ تخریب ہمیشہ داخل سے ہی شروع ہوا کرتی ہے خواہ خارج   سے  نیت و عمل شامل ہو یا نہ ہو ۔ داخل سے جب تک رضا شامل نہ ہو تخریب کا عمل کارگر نہیں ہو سکتا ۔ لہذا مختلف صورتوں میں اس خطے میں تخریب کاروں نے اپنا عمل دخل قائم کیا اور مختلف پہلووں پر اپنے اثرات کا نفوذ کیا ۔ معاشرے  کی ہر ہر قدر کو نشانہ بنایا  جاتا رہا جس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ سماج سے تعلیمی ، اخلاقی ، سیاسی ، سماجی قدریں  اپنی توانائی کھونے لگیں ۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ہر ذہن کسی نہ کسی مقام پر " بزعم خود" والی صورتحال کا شکار ہے ۔ ہر فکر کا حاصل انتہا ہے ۔ اختلاف کا مطلب قتل ہے ۔ اقرار کا مطلب اطاعت ہے ۔ انکار کا مطلب ارتداد ہے ۔ غرض سماج اپنی سب سے اعلی قدر " عقل" سے محرومی پرنازاں ہے ۔
یہاں آج بھی ستر سال پہلے کے واقعے پر سوال اٹھایا جاتا ہے ۔ اور ہزار سال  پہلے کے واقعے پر " پر  مغز " بحث ہونے کے بجائے " پر بغض " بحث ہوا کرتی ہے ۔  فکر کا جوہر " انتہا" ہوچکا ہے ۔
" فرد سے لیکر طبقات تک ، ہر ایک  مخالف پر تنقید کے لیے دیوان پر دیوان لکھ سکتا ہے ، مگر تعمیر کے لیے اذہان خالی ہیں ۔ "

    

Thursday, April 5, 2018

میرا جسم میری مرضی


میرا جسم میری مرضی 
شہیر شجاع
بلال الرشید صاحب فرماتے ہیں ۔ "انسان ایک جنگل میں جائے وہاں ایک خوبصورت اور پیچیدہ عمارت کھڑی ہو تو شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہاں کوئی ذہین مخلوق تھی ، جس نے یہ عمارت بنائی ۔ انسان ہر کہیں ڈھونڈتا ہے ، اسے کوئی نہیں ملتا ۔ اب وہ سوچتا ہے کہ اس عمارت سے فائدہ اٹھاوں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ فرض کرلیا جائے کہ یہ عمارت خودبخود بنی ہے کیونکہ  اگر کسی معمار اور کسی مالک کی موجودگی تسلیم کرلی گئی  تو پھر انسان اسے استعمال تو نہیں کرسکتا ۔ اسے یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ جیسے ہی اصل مالک آیا ، عمارت خالی کرنا پڑے گی ۔ اسی طرح ہمارے جسم کی جو پیچیدہ عمارت موجود ہے ، یہ اپنے آپ تو نہیں بن سکتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ خدا کی موجودگی تسلیم کر لیں تو پھر آپ کو اپنی خواہشات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ۔ بیٹھ کر پانی پینا ہے ، بسم اللہ پڑھ کر لقمہ توڑنا ہے ۔ حلال ذرائع سے کمانا ہے ۔ انسان للچا کر یہ سوچنے لگتا کہ کیوں نہ خدا کے وجود کا انکار کردیا جائے ۔ اس طرح اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکوں گا ۔ خدا کون سا سامنے کھڑا احکامات دے رہا ہے ۔ نہ ہی  کوئی فوری سزا ہے ۔ "
مگر یہاں دعوی  ملحد کی جانب سے نہیں بلکہ مومنات کی جانب سے وارد ہوا ہے ۔  یہ اس امر کی دلیل ہے کہ " حیا جو رخصت ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ایمان بھی لے جاتی ہے  " ۔   حیا نہ صرف ایمان ، بلکہ معاشرے کی چولیں ہلا دیتی ہے ۔ تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے ۔  عالم مغرب میں حقوق نسواں کی تحاریک نے زور پکڑا اس تحریک کو  کامیابی ملی ۔   صنف نازک جو چاہتی تھی اسے مہیا کردیا گیا ۔ فرق بس اتنا ہے پہلے عورت ایک دو یا تین مردوں  کی زیادتی سہتی تھی ، اب  وہ کئی مردوں کی زیادتیاں  بخوشی قبول کرتی ہے ۔   یعنی " میرا جسم میری مرضی " ۔
انسان  ہمیشہ غلبے کی خواہش تلے ہی مارا جاتا ہے ۔ یہاں تک آخری صورت میں الحاد کی رسی کو تھام کر مطئن رہنے کی لاحاصل کوشش کرتے ہوئے رخصت ہوجاتا ہے ۔   

Saturday, March 10, 2018

پینٹنگ

پینٹنگ

شہیر شجاع

جمیل مسیح   ۔۔ ہمیشہ ہنتے مسکراتے رہنا ۔ خوش رہنا ، بلا کا ظرف پایا تھا اس نے ۔ وہ   مکینک تھا ۔ واشنگ مشین ، اے سی وغیرہ ٹھیک کرنا اس کا پیشہ تھا ۔ہم  ایک تھالی میں کھانا بھی کھاتے ۔ ایک ہی گلاس میں پانی بھی پیتے ۔ یہ میرے لیے انوکھا تجربہ تھا ۔ کیونکہ بچپن سے کچھ الگ ہی ذہن بنا ہوا تھا ۔ جس کے بالکل برعکس میں چل پڑا تھا ۔ وہ جس دکان پر ملازم تھا اس کا مالک عظیم بھی میرا دوست تھا ۔ اسی کی توسط سے میں جمیل سے ملا تھا ۔ وہ صبح دکان کھولتا شام تک کام کرتا ۔ خواہ وہ دکان پر ہو یا کسٹمر کے گھر جا کرکام کرنا ہو ۔ وہ مکمل " ایمانداری " کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتا ۔ اتوار کو جب وہ صبح تیار ہوتا ۔ اور چرچ جانے لگتا تو  ایک نہایت ہی معصوم اور پیارا سا مذہبی جذبہ اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ۔  میں مسکرائے بغیر نہ رہتا ۔
اس دن ہمارا پکنک کا پروگرام تھا ۔ سوچا کہیں ساحل سمندر کی جانب چلا جائے ۔ کچھ ہلا گلا کیا جائے ۔ کچھ باربی کیو ، کچھ سمندر کے کھارے پانی میں ڈبکیا ں ۔ کہیں صیاد ہو کر صید مچھلی ۔ سو  پچھلی رات تیاریاں مکمل کرکے ہم چار لوگ صبح سویرے نکل کھڑے ہوئے ۔ میں ، جمیل ، عظیم اور عظیم کے بزرگ والد جو کافی ضعیف اور بیمار بھی تھے ، اتنے کے اپنی شلوار  صاف رکھنے پر اختیار کھو چکے تھے  ۔ ڈرائیو عظیم کر رہا تھا۔
ڈیش بورڈ سے اوپر بیک مرر  پہ آیت الکرسی لٹک رہی تھی ۔ اور ساتھ ہی مختلف رنگوں کے امتزاج سے کوئی خوبصورت پینٹنگ بھی لٹکا رکھی تھی ۔ میری نظر جب بھی اس پینٹنگ سے ٹکراتی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ۔ وہ رنگ مجھے تحلیل ہوتے محسوس ہوتے ۔  مختلف رنگوں کا امتزاج آہستہ آہستہ کسی ایک رنگ میں تبدیل ہورہا ہو ۔ اور میرے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل جاتی ۔ کچھ تارے سے جھلملانے لگتے ۔
  اس کے ساتھ والی سیٹ پر اس کے والد بیٹھے تھے ، جمیل اور میں پچھلی سیٹ پر براجمان تھے ۔  اس کے چہرے پر کچھ اداسی سی چھائی تھی ۔ جس کے اظہار سے وہ کترا رہا تھا ۔ جسے میں نے شدت سے محسوس کیا ۔ اس میں وہ ہمیشہ کی گرمی نہیں تھی جو اس کے چہرے سے پھوٹا کرتی ۔ اس کی حرکیات سے ماحول خوشگوار کیے رکھتی ۔
کیا بات ہے جمیل پریشان لگ رہے ہو۔۔۔؟
نہیں آزاد بھائی ٹھیک ہوں ۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔
کچھ تو ہے ۔ جس کی پردہ داری ہے ۔ ہاں !!!!۔۔ میں نے قدرے خوشگوار انداز میں اسے چھیڑا ۔
تب بھی اس کے چہرے پر وہ مسکراہٹ عیاں نہ ہوسکی ۔ میں ٹھٹک گیا ۔ کچھ تو تھا جس نے اسے پریشان کر رکھا تھا ۔ 
جمیل کیا بات ہے ؟ تمہارے بھی کسی عزیز کا گھر جل گیا ۔ ؟
اس نے بے اختیار میرے چہرے کی جانب دیکھا ۔ اور اس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپک پڑے ۔  میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کچھ زور دیکر اپنی جانب کھینچا ۔ اس نے اپنا چہرہ میرے سینے میں رکھ دیا
اور بنا آواز بنا سسکیوں کراہوں کے رودیا ۔ بس اس کے آنسو تھے جو میری ٹی شرٹ   بھگو کر میری چھاتی میں جذب ہورہے تھے ۔ وہ آنسو جیسے محض پانی نہ تھے ، کرچیاں تھیں جو میرے سینے میں چبھ رہی تھیں ۔ میرے پاس الفاظ نہیں تھے اسے دلاسہ دینے کے لیے ۔ یونہی  چند لمحے گزرے اور مزید گزرے  ۔
ابے انہی لوگوں نے  پہل کی تھی ۔ آخر کو بھگتنا تو پڑے گا ۔ یہ عظیم کے الفاظ تھے ۔ جس پر جمیل نے سر اٹھانے کی کوشش کی پر میں نے اسے سینے میں دبوچے رکھا ۔ کرچیاں کچھ زیادہ بڑھ گئیں ۔
یار عظیم ، جرم کا حساب عدالت میں ہوتا ہے ۔ صحیح غلط  کے فیصلے کے لیے عدالتیں موجود ہیں ۔ قانون کے ادارے موجود ہیں ۔   کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سر راہ  کسی کو بھی نقصان پہنچائے ۔ اور یہ تو ایک گھر نہیں پورا محلہ جلا دینا ۔ نہ جانے کس مشقت سے ، تنکا تنکا جوڑ کر گھر بنایا ہوگا ۔ انہیں بے گھر کردینا ۔ یہ  کہاں کے اخلاق ہیں ؟
میں نے کچھ اپنی دانش جھاڑنے کی کوشش کی ۔
ابے تجھے کیا پتہ انہوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی ۔ صلی اللہ کا ۔۔ اللہ کچھ زور دے کر اس نے کہا ۔
گاڑی دھپ سے اچھل پڑی ہم سب ہل کر رہ گئے ۔ عظیم  باتوں میں اس جمپ کو دیکھ نہ سکا تھا ۔ ساتھ وہ آیت الکرسی اور پینٹنگ لرز کر رہ گئے  ۔ پینٹنگ کے رنگ جیسے یہاں وہاں بکھر رہے ہوں ۔ جن میں سرخ رنگ نمایاں محسوس ہوتا تھا ۔
تو کیا اس کی سزا تم دو گے ؟ وہ بھی ان کے گھر جلا کر ؟ انہین بے گھر کر کے ؟ ان کے زندہ سلامت جسد کو سوختہ لاش بنا کر ؟ یہ تو ظلم کی حد ہے ۔ یہ کوئی انصاف  کے ایک ذرے کا تقاضا بھی پورا نہیں کرتا ۔ تمہیں اگر اتنی محبت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ گستاخ کو سمجھاتے اس کی ہدایت کی جلن لیکر اٹھتے کہ وہ نہیں جانتے ۔ یہی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں ۔ میں نے بھی صلی اللہ کے اللہ پر کچھ زیادہ زور دے کر بھاشن دے ڈالا ۔ 
جمیل نے پھر سر اٹھانے کی کوشش کی پر میں نے اسے وہیں سینے سے لگے رہنے پر مجبور رکھا ۔
ابے جا بڑا  آیا لبرل بننے والا ۔ تیرے دل میں تو عشق رسول ہے ہی نہیں ۔ اگر ہوتا تو ، تو نے یہ نہ کہنا تھا ۔ بلکہ ان کے گھر جلانے والوں میں تو بھی شامل ہوتا ۔ گستاخ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ۔  عظیم نے میرا تمسخر اڑایا ۔
پھٹ پھٹ پٹ پٹ ۔۔ پڑڑڑڑڑ ۔۔۔
چھی ۔۔ شٹ ۔۔ ابو یہ کیا کیا ؟ کم از کم بتا ہی دینا تھا ۔ میں گاڑی کھڑی کردیتا ۔ ساری گاڑی گندی کردی ۔
عظیم نے گاڑی کچھ آگے جا کر ایک جانب روکی ۔ سڑک سنسان تھی ۔ اکا دکا گاڑیاں زن سے گزر جاتیں ۔ میں اور جمیل باہر نکلے ۔ عظیم پہلے ہی ابوکی جانب  کا دروازہ کھول چکا تھا ۔ اور انہیں باہر نکالنے کی سعی کر رہا تھا   اور اس پھیلی ہوئی غلاظت سے ناک بھوں چڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو محفوظ بھی رکھنا چاہتا ہو ۔  میری  بھی اب تک ہمت نہ ہوئی تھی کہ پاس جاتا ۔ جمیل مسیح آگے بڑھا اور ابو کو  سکون سے اپنی گود میں اٹھا لیا ۔ جیسے وہ اسی کے باپ ہوں ۔  وہ انہیں اٹھا کر کچھ دور لے گیا ۔ اسی دوران میں پانی کی بڑی بوتل ڈگی سے نکال کر ان کے پیچھے چل پڑا ۔ عظیم ایک جانب کھڑا ۔۔ شٹ ۔۔ شٹ کرتا رہ گیا ۔
جمیل نے ان کے کپڑے اتارے، میں دوڑ کر چادر لے آیا جو انہیں اوڑھا دیا۔جمیل نے  ان کپڑوں کو دھویا ۔ ان کے جسم کی غلاظت کو صاف کیا ۔  اس دوران اس کے چہرے پر ہلکی سی بھی کوئی بدمزگی پیدا ہوئی ہو ۔ نہایت اطمینان سے اس نے  یہ سارے کام انجام دیے ۔
ابے جلدی کرو دیر ہورہی ہے ۔ عظیم کے چیخنے کی آواز آئی ۔ جمیل اور میری آنکھیں چار ہوئیں ۔ اس کے چہرے پر پر خراش مسکراہٹ تھی اندر کہیں اداسی سرسراتی تھی ۔ میری آنکھیں زیادہ دیر اس سے ہمکلام نہ رہ سکیں اور جھک گئیں ۔ ویسے ہی گیلے کپڑے ابو کو پہنائے اور ہم دونوں کندھوں کا سہارا دیکر انہیں گاڑی تک لے آئے ۔
ابو کو میں کندھے پر سہارا دیے رکھا ۔ اس دوران جمیل نے سیٹ صاف کردی ۔پھر انہیں گود میں اٹھایا اور قدرے مشکل سے انہیں اگلی سیٹ پر بٹھا دیا ۔ 
میری نظر سرکتی ہوئی پینٹنگ کی جانب گئی جو  اس زور آزمائی پر گاڑی کے لرزنے کی وجہ سے  دائیں بائیں ہلنے لگی تھی ۔  رنگوں کا امتزاج  خوشنما تھا یا بدنما میں کوئی فیصلہ نہ کر پایا ۔
ابھی سفر باقی تھا ۔ ہم پکنک منانے نکلے تھے ۔
ہم نے سمندر میں ڈبکیاں لگانی تھیں ۔ باربی کیو کرنا تھا ۔
صیاد مچھلی ہونا تھا ۔
گاڑی آگے کو دوڑتی جاتی تھی ۔ آیت الکرسی اور وہ پینٹنگ دائیں بائیں ہلتی تھیں ۔ رنگوں کا امتزاج پر تحلیل نہ ہوتا تھا ۔ میرا تصور کہیں منجمد ہوگیا تھا ۔ 

گستاخ

گستاخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہیر شجاع
ایک چرچ کی دیوار پہ انجیل کی آیت کو مٹا کر اس پر لبیک یا رسول اللہ لکھ دیا گیا ۔  جذبہ ایمان سر چڑھ کر بولا ۔ بائبل کی آیت کے اوپر لبیک یا رسول اللہ ۔ ؟
وہ ایک بے سہارا ماں تھی ۔ جس کی حافظہ قرآن بیٹی کو " بااثر افراد" اغوا کر کے لے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا ؟ بالآخر اسے قتل کردیا گیا ۔ ماں دہائی دیتی رہی ۔ قانون کے ادارے اس کی بے  مائیگی  بے بسی پر ٹھٹھے اڑاتے رہے ۔ پر وہ ایک ماں تھی ۔ کسی طرح چند درد مندوں تک اپنی بات پہنچا دی ۔ اور انہوں نے اس درد کو آگے منتقل کرنے کی کوشش کی کہ اس  بے بس ماں کوانصاف ملے  ۔اس معصومہ  جس کے سینے میں کلام اللہ محفوظ تھا، جو اس پاک کلام سے اپنی صبح کیا کرتی تھی اور شام کیا کرتی تھی ۔ جس کی زبان اس پاک کلام سے ہمہ وقت تر رہتی تھی ۔ اس معصومہ کے ساتھ ان " بااثر افراد " نے ظلم و ستم کی حد کردی ۔  جسد مردار میں چند سانسیں بچی تھیں وہ بھی بالآخر چھین لیں ۔۔  
کوئی لبیک یا رسول اللہ نہیں ۔۔۔  
کوئی ہجوم اکھٹا نہ ہوا ۔۔۔ کسی کے جذبہ ایمانی پر آنچ نہیں آئی ۔ کسی صاحب ایمان کا جذبہ ایمانی نہ جاگا کہ ان ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ وہ ظالم دندناتے پھرتے ہیں ۔ اور مظلوموں کو آنکھیں دکھاتے ہیں ۔ ان کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں ۔ مگر اصحاب ایمان کے ایمان کی حرارت ان کو متحرک نہیں کرتی ۔  
کوئی لبیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔
ساہیوال میں چرچ پر دھاوا بول دیا گیا ۔ لبیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ جذبہ ایمانی کی حرارت ۔۔۔۔۔

پطرس مسیح کوئی  غلط میسیج فارورڈ کر دیتا ہے ۔ جس بنا پر عشق رسول کے دعوے دار سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔ اس کی پھانسی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔  ہجوم ہے اور شور ہے ۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ شعور ماتم کناں ہے                                                                                                              
لبیک ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔  

گھروں  کو جلانے کی خواہش  لیکر اصحاب ایمان  کا دوڑپڑنا  ۔۔  اور یہ سب اس ایمانی جذبے کے تحت ہونا ،  جو  رحمت اللعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ جن کے عظیم اخلاق  تا قیامت سرچشمہ حیات ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت  کے دعوے کی  بنیاد پر ۔۔۔۔
گھروں کو جلانا ؟   بے گناہ  ، بھلے گناہ گار ہی کیوں نہ ہوں ۔ کونسا ایمانی جذبہ ہے وہ کونسے اخلاق حسنہ ہیں جو گھروں کو جلادینے   ، جیتے جاگتے انسان کو جلادینے کا درس دیتے ہیں  ؟ 
ایک پورا سماج اتھل پتھل ہوجاتا ہے ۔ اصحاب ایمان کے عظیم اخلاق  محبت کے پیامبر کے مقلدین   خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہیں ۔ افراد کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ دربدر پھریں ۔ وہ اخلاق حسنہ سے خوفزدہ ہوجائیں ۔

نبوی اخلاق ؟ ۔۔۔۔۔

مائیکل صاحب قانون پر اعتماد کرتے ہوئے   لڑکے کو پولیس کے  حوالے کردیتے ہیں ۔ پولیس کیا کرتی ہے ؟  وہی جو ہر ایک کے ساتھ کرتی ہے ۔  وہ پولیس جو ایک بے بس ماں سے کہتی ہے جاو جا کر اپنی بیٹی چھڑا لو ۔ اور وہ ماں خون کے آنسو روتی ہے ، بلکتی ہے ، چیختی ہے چلاتی ہے ، دیوانہ وار گھومتی ہے ، مگر کوئی ایمانی ہجوم اکھٹا نہیں ہوتا ، چہار جانب قہقہے برستے ہیں ، اور شعور ماتم کرتا ہے ۔ ایسی پولیس کے لیے تو یہ کیس اور بھی سہل تھا ۔ اس کی ہڈی پسلیاں ایک ہوتی ہیں ۔ اور شرمناک شدید شرمناک چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے ۔
پولیس گردی ۔۔۔ لبیک ۔۔۔
کیا اب ہجوم اور ریاست میں ہجوم کا پلڑا بھاری ہو اکرے گا ؟
کیا انصاف کے ادارے  پکوڑے بیچا کریں گے ؟
سیاسی ادارے اقتدار کی جنگ لڑا کریں گے ؟
کیا چرچ کی دیوار پر اس مذہب کی مقدس آیت کو مٹانا ، بلاز فیمی میں زمرے میں نہیں آتا ؟
سر عام میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانے والے علامہ  بلازفیمی میں نہیں آتے ؟ جو   گالی بھی دیتے ہیں اور اسے اخلاق نبوی سے ثابت بھی کرتے ہیں ؟ 
کیا  حب نبی کا تقاضا یہی رہ گیا ہے کہ ۔ اس رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ۔۔۔۔۔۔۔ گھروں کو جلایا جائے ۔   انسانوں کو راکھ کیا جائے ۔ ان کا سانس لینا محال کردیا جائے ۔
یہ کم از کم میرے حبیب ۔۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں نہ ان کی تعلیمات ۔  مجھے افسوس ہے کہ جس بلند اخلاق بلند کردار ، محمد مصطفی ، احمد مجبتی ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواوں کی جانب سے یہ سب ہو رہا ہے ۔  جن ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اخلاق یہ تھا کہ وہ اپنے ازلی دشمنوں کو بھی معاف کردیا کرتے تھے ۔ وہ امت کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ وہ تاریکی مٹانے آئے تھے ۔  ہدایت کی روشنی پھیلانے آئے تھے ۔ وہ عقل کو صحیح سمت میں گامزن کرنے آئے تھے ۔ وہ دلوں کو مسخر کرنے آئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ یہ سب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہا ہے ۔۔
مجھے افسو س ہے ۔۔
مجھے افسوس ہے ۔۔
مجھے افسوس ہے ۔۔


Saturday, February 17, 2018

تماشہ


تماشہ
شہیر شجاع
مسئلہ یہ نہیں عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔ مسئلہ یہ آج نہیں پیدا ہوا ۔۔ یہ مسئلہ شروع سے ہی ہے ۔۔ جس کی ابتداء نظریہ ضرورت کے تحت ہوئی ۔۔۔۔ 
آج جو میاں صاحب اینڈ فیملی جلے بھنے بیٹھے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج اس آگ نے ان کے دامن کو جلا ڈالا ہے ۔۔۔۔
افسوس کہ ہم بجائے اس کے کہ ان اقتدار کے بھوکوں سے اپنے حقوق کے مطالبے کرنے کے ہم اس حریص ِ اقتدار کے ساتھ کھڑے عدلیہ کو ہی کمزور کرنے اور عدلیہ پر جو بھی اعتبار ہے اسے ختم کرنے پر تل گئے ہیں ۔۔ پہلے تو ن لیگ نے پوری کوشش کی کہ فوج کے بارے میں عوام میں شدید بدگمانی پیدا ہوجائے ۔۔ جس کو کافی حد تک کم کرنے میں جنرل باجوہ نے اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ اب عدلیہ کے ساتھ کون کھڑا ہو ؟ 
عمران خان کے پاس نواز شریف جیسی " سوکالڈ سیاست " نہیں اور نہ وہ ان عوامل کا ادراک رکھتا ہے جو پاکستان جیسے معاشرے میں جنرل ضیاء کے دور سے سیاست میں در آئے جس نے سیاست کے معانی بدل کر رکھ دیے ۔۔۔ 
ان سیاستدانوں نے آج تک پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے ، پارلیمنٹ کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنے ، خارجہ و داخلہ امور پر گفتگو کرنے کے لیے کتنا استعمال کیا ؟ سوائے ان امور میں پارلیمنٹ میں یہ سب متحد ہوئے جہاں ان کے اقتدار اور ان کی کرپشن یا ان کے مفادات کو خطرات لاحق ہوئے ۔۔۔ ورنہ آج بلدیاتی نظام اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا جاتا ۔۔ پارلیمنٹ ایک منتظم کی حیثیت سے قوانین بنا رہی ہوتی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو مضبوط تر کرنے ، انصاف کی فراہمی کو آسان کرنے و دیگر امور پر رات دن ایک کیے ہوتے ۔۔۔
ہمارا کیا ہے ؟ کبھی " آمر " فوجی ہوتا ہے ۔۔ کبھی " سیاستدان " ۔ تو کبھی عدلیہ ۔۔۔۔
ہم تو تماشائی ہیں ۔۔ کبھی اس کے لیے تالیاں پیٹنے والے کبھی اُس کے لیے ۔۔۔
سو لگے رہیں ۔۔۔

حسن ظن

حسن ظن
شہیر شجاع
جب ن لیگ نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد کیا یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم بنا بھی دیا گیا ۔ اس وقت تک ہم جیسے عام لوگ ان کو پی آئی اے کے سربراہ اور اپنی نجی ائر لائن ائر بلو کے مالک کی حیثیت سے ہی جانتے تھے ۔ سوال اٹھانے والے کہتے تھے ان کی اپنی ائر لائن تو منافعے میں جا رہی ہے اور پی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کرپشن ہی کی ہوگی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک سرسری سا وزیراعظم صاحب کی شخصیت کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا وہ مخفی منفی ہی تھا ۔ چونکہ ان کی شخصیت پر پروپیگنڈا کرنے کے لیےمواد موجود نہ تھا سو بات مزید آگے نہیں بڑھی ۔ پھر چند تصاویر اور آرٹیکلز حضرت کے بارے میں سامنے سے گزرے ۔ جن سے ان کی الگ شخصیت کا نیا تاثر ابھرا ۔ ایک سادہ ، مخلص شخصیت ۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں سارے سیاستدان برےنہیں ہوتے ۔
المیہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شکست سیاستدان کو اس وقت ہوتی ہے جب اس کے گلے میں پارٹی ڈسپلن کا طوق ڈالا جاتا ہے ۔ غائر نظر پارٹی ڈسپلن ایک مثبت شے ہے ۔ مگر اس کی بنیاد عموما پارٹی کا ڈسپلن نہیں ہوتا بلکہ پارٹی کے سربراہ کا حاکمانہ تصور ہوتا ہے ۔ پارٹی ڈسپلن دراصل پارٹی سربراہ کی منشاء کی تحریری شکل ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے مخلص سیاستدان بھی اپنا چند فیصد ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف  فی الوقت سیاست کے میدان میں ن لیگ  دراصل نواز شریف کی پارٹی ، پیپلز پارٹی دراصل بھٹو کی پارٹی کے از بعد مین اسٹریم میڈیا میں تیسری جماعت کو حصہ ملا ہے وہ تحریک انصاف عمران خان  کی پارٹی ہے ۔  میرا اب یہ یقین ہے کہ تحریک انصاف  میں کوئی  روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ نہ رہا ۔ اسی وجہ سے پہ درپہ وہ شکست خوردہ ہوئی جاتی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہے ۔ چونکہ یہ جماعت بھی روایتی سیاست کے رستے پر چل نکلی ہے سو اب ان کی کامیابی کا دارومدار بھی  " دکھاو پر پیسہ بہاو " پر ہی منحصر ہے ۔ چہ جائیکہ اس جماعت کی حکومت میں شامل وزراء اپنے کام میں بقیہ جماعتوں کے وزراء کی نسبت آزاد ہونگے یہ میرا حسن ظن ہے ۔ بہرحال بات کہیں سے کہیں جا نکلی ۔ اس وقت ن لیگ کی جانب سے  نامزد اور پاکستان کے منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب بھی ان سیاستدانوں میں محسوس ہوتے ہیں جن کے پاس اختیارات ہوں تو وہ پاکستان کی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہوں ۔ اپنی بہترین ٹیم کے انتخاب کا ان کے پاس اختیار ہو تو شاید وہ پاکستان کے حق میں ایک اچھے سیاستدان ثابت بھی ہو سکتے ہوں ۔ یہ میرا گمان ہے ۔ اور شاید پاکستان کا ہر باسی کسی بھی شخص میں خدا ترسی دیکھ لے تو وہ فورا موم ہوجاتا ہے اور اس شخص کے لیے احترام کا جذبہ پال لیتا ہے ۔ خواہ وہ لبادہ حقیقی ہو یا نا ہو ۔ مسلم کے  فطری اخلاق یہی ہیں اور یہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ افسوس کے ن لیگ کی جانب سے نواز شریف کے لیے تو مکمل میشنری موجود ہے ۔ مگر فی الوقت جس شخص نے  ن لیگ کی حکومت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ۔ اس کے لیے چند الفاظ لکھنے کی توفیق بھی ان میں نہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس طرح شریف فیملی کی قدر میں کمی نہ پیدا ہوجائے ۔ اور ان کی ناراضی مول لینا  ان مفاد پرستوں کے بس کی بات نہیں ۔ میرا یہ بھی احساس ہے کہ شاہد خاقان عباسی جیسے شخص کا وزیر واعظم منتخب ہوجانا  جمہوری دور میں ایک نئے موڑ کا باعث بھی بن سکتا تھا بلکہ ہے ۔ اگر اس وقت ن لیگی جمہوریت کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے کی نیت خلوص رکھتے ہوں اور ان کی سیاست کا مقصد حقیقی پاکستان کی فلاح ہو ۔ وہ اس طرح کہ ساری کی ساری کابینہ ، وزراء ، سیاسی کارکن  اپنے وزیر اعظم کے مسلسل کاموں کو پروموٹ کریں ۔ جو یہ ظاہر کرے کہ پارٹی کا ہر کارکن کام کرنے میں آزاد ہے سوائے اس کے کہ وہ منشور سے رو گردانی کرے جو منشور عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ یا آئین پاکستان کے خلاف اعمال و افعال  سامنے آئیں ۔ اس طرح سے ن لیگ کو ایک خاندان کے چنگل سے بھی نکالا جا سکتا ہے ۔ بیشک یہ آسان نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد اس خطے کی سیاست میں طاقت کا توازن بھی بگڑنے کا مکمل  امکان رہتا ہے ۔ جو قوت اقتدار شریف خاندان کو میسر ہے شاید وہ قوت ن لیگی کسی دوسرے فرد میں منتقل ہونا قبول نہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی  پارٹی کے لیڈر کے لیے جماعت اسلامی کا فارمولہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
مگر اگر مگر یہ سب کیونکر ہو ۔۔۔ شاہد خاقان عباسی ، ۔۔ اور ان جیسے کئی ایسے لوگ ہونگے جو شاہی خانوادوں کے اقتدار کی نذر ہوتے رہیں ۔ اپنی منشاء کے مطابق کہ ۔۔ کسی نے کیا خوب جملہ کہا ہے ۔۔۔
پاکستان میں دو وزیر اعظم ہیں ۔ ایک " نا اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل نہیں مانتا ۔ دوسرا " اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل مانتا ہے ۔

Saturday, January 27, 2018

کراچی ، چند سسکتی یادیں اور امید ۔

کراچی ، چند سسکتی یادیں اور امید ۔
شہیر شجاع
کسی نے  ایک جملہ کہا " مکا تو پولائٹ سا لفظ ہوگا آپ کراچی کے  لوگوں کے لیے " یقینا یہ اذراہ مذاق تھا ۔۔۔ لیکن چشم تصور میں ماضی کی بہت سی یادیں تازہ کرگیا ۔  میں نے اس وقت  ہوش سنبھالا جب کراچی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجا کرتا اور یہ عام بات ہوتی گئی ۔ سڑک اچانک سنسان ہوجاتی اور دو گروہوں کے مابین خونخوار مقابلہ شروع ہوجاتا ۔ چند  لاشیں وہاں گرتیں چند یہاں ۔ ہم رات کو سوتے تو اچانک ٹائروں کے چرچرانے کی آواز سے آنکھ کھل جاتی ۔ پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجتی اور چند ہی لمحوں میں سناٹا چھا جاتا ۔ اور پھر ہماری آنکھ لگ جاتی ۔ یہ بے حسی کی جانب ابتداء تھی ۔ ہم صبح سو کر اٹھتے اسکول یونیفارم میں باہر نکلتے تو  سڑک پر لاش پڑی ہوتی جس کے ہاتھ بندھے ہوتے اور سینہ چھلنی ہوتا ۔ ہم اس لاش کو یوں دیکھتے جیسے کوئی بلی مری ہو ۔ پولیس  ایمبولینس اور تماشایوں کا ہجوم ہوتا اور ہم اسکول کی راہ لیتے ۔ گولیوں کا چلنا ، لاشوں کا گرنا ، شیعہ سنی ، ایم کیو ایم ، ایم کیو ایم حقیقی ، ہتھوڑا گروپ ، اور نہ جانے کیا کیا ۔ یوں ہمارا بچپن گزرتا گیا ۔ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے سے پہلے ہی سینہ پتھر ہوتا گیا ۔ بھتہ خوری عام تھی  ۔ کاروبار شروع کرنا ، گھر بنانا ، آرائش ، شادی بیاہ ، غرض ہلکی سی چمک آپ کی  دہلیز پر دہشت گردوں کو کھڑا کرنے کے لیے کافی تھی ۔ تعلیمی اداروں پر بھی انہی چیزوں کا راج تھا ۔ ہم پانچویں جماعت میں تھے کہ آٹھویں کا لڑکا اور نویں جماعت کے لڑکے کے مابین جھگڑے کی وجہ یہی پارٹیاں تھی ، خون دیکھ کر اسکول کے ان نازک اندام بچوں پر کوئی خوف طاری نہ ہوا ۔ انہی دنوں ایک نوجوان ہمارے پڑوس میں قتل کردیا گیا ۔ کسی کو افسوس نہ ہوا ۔ خون یوں تھا جیسے پانی ۔ آج کراچی میں خون کی بہتی ندیوں کو بھلے قرار آیا ہے ۔ مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر نادرا کی دہلیز تک کراچی کے لوگ آج بھی بے بس ہیں ۔ بھتہ خوری آج بھی اسی ڈگر پر موجود ہے ۔ آپ کاروبار بنا کسی کو بھتہ دیے نہیں چلا سکتے ۔  
کیا کراچی کو کبھی بھی اپنانے والے سیاستدان پیدا نہیں ہونگے ؟
تھانے بھتے جمع کرنے کے ادارے بن چکے ہیں ۔
پولیس بھتہ خور ہے اور بھتہ لینےوالوں کی محافظ ہے ۔
عدل کے اداروں کی صورتحال سے کون ناواقف ہوگا ۔
کیا کراچی پھر کبھی علم و فن ، تہذیب و تمدن کا  چمکتا ستارہ نہیں بن سکے گا ؟
وہ جو " علم " تہذہب " و ثقافت " اس کی شان تھی ۔ کیا وہ پھر حاصل نہ کرسکے گا ؟
   

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...